کتاب: نماز تراویح فضائل و برکات تعداد رکعات ازالہ شبہات - صفحہ 92
ان دونوں احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہوا کہ نوافل کی جماعت بلا ریب جائز ہے ۔ مگر یہ اتفاقی امر ہے جس کی صورت مثلاً یہ ہے کہ ایک آدمی نفل نماز پڑھ رہا ہے اتنے میں ایک دوسرا آدمی دیکھتا ہے کہ مولوی صاحب یا حافظ صاحب نفل نماز پڑھ رہے ہیں، وہ بھی شامل ہوجائے تو یہ تو درست ہے۔ لیکن اس کا اہتمام کرنا ، اعلانات اور دوسری تشویقات اور ترغیبات کے ذریعہ مردوں اور عورتوں کو اکٹھا کرکے نوافل کو باجماعت بالدّوام ادا کرنا نہ صرف جائز نہیں بلکہ بدعت ہے ۔ اسی طرح وتروں کے بعد دو رکعت نفل پڑھنے بھی ثابت ہیں ۔ صحیح مسلم کے نامور شارح امام نووی رحمہٗ اللہ نے لکھا ہے کہ آپ ﷺ نے وتر نماز کے بعد یہ دو رکعت نفل جواز ثابت کرنے کیلئے ادا فرمائے تھے ۔ امام نووی رحمہٗ اللہ نے یہ بھی وضاحت فرمائی ہے کہ آپ ﷺ نے ان دو نفلوں پر ہمیشگی نہیں فرمائی یعنی یہ آپ ﷺ کی عادتِ مستمرّہ نہ تھی ۔شرح صحیح مسلم ج :۱ ، و فقہ السنۃ ج : ۱ ، ص : ۱۶۴ ۔ اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ اتفاقی طور پر نوافل باجماعت جائز ہیں اور یہ بھی ثابت ہوا کہ وتر نماز کے بعد دو رکعت نماز نفل پڑھنے بھی جائز ہیں مگر دوام کے ساتھ نہیں بلکہ کبھی کبھار اور بس ۔ اب لیجئے مسئلہ کی دوسری شق یعنی اس مطلق جواز کے ہونے پر دوام اور ہمیشگی اور وہ بھی مہینہ اور وقت کی تعیین کے ساتھ پڑھی جانے والی نمازِ نفل کی باجماعت تکرار ،تو یہ بلا شبہ جائز نہیں بلکہ اس پر دوام اور اصرار شائبہ بدعت سے خالی نہیں ۔ کیونکہ یہ تقیّدات مع اہتمام اس مطلق جواز کو بدعت میں بدل دیتے ہیں۔جیسا کہ نمازِ چاشت بلا ریب صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہما سے یہ نماز مروی ہے اور نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس کی پابندی کی وصیت بھی فرمائی تھی ملاحظہ ہو: صحیح بخاری ج :۱ ، ص : ۱۵۷ مگر اس وصیت کے باوصف حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نمازِ چاشت کو بدعت قرار دیتے ہیں ۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے ۔ حضرت مجاہد تابعی کا اظہار ہے کہ میں اور عُروہ بن زبیر دونوں مسجد میں داخل ہوئے :