کتاب: نماز تراویح فضائل و برکات تعداد رکعات ازالہ شبہات - صفحہ 87
وقت گزارنا ہو تو اتنی دیر کھڑے رہنا پڑے گا کہ ہر کس ونا کس کی برداشت سے باہر ہوگا ۔ اسلیٔے مختلف ادوار میں لوگوں نے اوسط درجہ کی تلاوت کے ساتھ آٹھ رکعت تراویح پڑھ کر ، رات کے باقی حصے میں مطلق نفل کی حیثیت سے مزید کچھ رکعتیں پڑھنی شروع کردیں اور چونکہ نفلوں کیلئے کوئی حد اور تعیین نہیں بلکہ جو جتنی رکعتیں چاہے پڑھ سکتا ہے، اسلیٔے آٹھ رکعتوں پر جو اضافہ ہوا، اسمیں مختلف لوگوں کا معمول مختلف رہا ہے یعنی کسی نے سولہ ، کسی نے بیس ، کسی نے چوبیس ، کسی نے اٹھائیس ، کسی نے چونتیس ، کسی نے چھتیس ، کسی نے اڑتیس ، کسی نے چالیس اور کسی نے بیالیس رکعتیں پڑھیں اور ان کے بعد تین یا سات وتر پڑھے تھے ۔ عدد کی اس کمی بیشی کا انحصار محض پڑھنے والوں کی رغبت و شوق پر تھا ۔ اور تراویح کے متعلق جن علمائِ احناف کے اقوال ہم نے پیش کیٔے ہیں یا جن کی طرف انکی کتب کے حوالوں سے اشارہ کیا ہے، انھوں نے بھی اختلاف سے نکلنے کا یہی حل بتایا ہے کہ آٹھ رکعتیں تو سنّتِ رسول ﷺ ہیں اور باقی نفل و مستحب ۔ لہٰذا جو شخص آٹھ تراویح پڑھتا ہے اور ان پر کوئی اضافہ نہیں کرتا تو اسکا یہ فعل بھی صحیح ہے ،بلکہ سنّت و ثابت یہی عدد ہے ۔ اور اگر کوئی شخص بیس تراویح پڑھتا ہے اور ان میں سے آٹھ کو سنّتِ ثابتہ اور بقیہ بارہ کو محض نفل و مستحب کی حیثیت سے ادا کرتا ہے تو بھی اسمیں تشدّد کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اگر کوئی شخص جذبات کی رو میں بہہ کر ، اپنے کچھ مخصوص مقاصد کے حصول کی خاطر خواہ مخواہ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے ہوئے اُن میں سر پھٹول کروائے اور آٹھ سے زیادہ کو قطعاً ناجائز اور بدعت قرار دے یا صرف بیس کو ہی سنّتِ مؤکّدہ ٹھہرائے اور اس میں کمی بیشی کو مکروہ و بدعت ، خلافِ اجماع اور شفاعتِ نبوی ﷺ سے محرومی کا سبب قرار دے تو یہ سنگین غلطی ہے اور ماضی میںہمارے برِّ صغیر کے بعض جوشیلے بھڑکیلے اور جذباتی قسم کے واعظین و مبلّغین سے ایسی غلطیاں سرزد ہوتی رہی ہیں، حالانکہ ہمیں اِسکی بجائے کچھ وسعتِ ظرفی سے کام لینا چاہیئے اور ایسے مسائل میں شمشیرِ تفسیق و تکفیر نہیں چلانی چاہیئے ۔