کتاب: نماز تراویح فضائل و برکات تعداد رکعات ازالہ شبہات - صفحہ 82
4۔ ہدایہ پر اپنے حاشیہ میں لکھا ہے کہ 1286 ؁ھ میں مجھ سے پوچھا گیا کہ جس نے آٹھ رکعاتِ تراویح پڑھیں جنکا تذکرہ صحیح ابن حبان میں ہے اور تین رکعاتِ وتر ادا کیں ، تو کیا وہ تارکِ سنّت ہوگا ؟ تو اُس کا میں نے جو جواب دیا اسکا خلاصہ یہ ہے کہ تمام علمائِ اصول صرف اُس عمل کو ’’ سنّت ‘‘ کہتے ہیں جس پر نبی ﷺ نے ہمیشگی کی ، سنّت کی تعریف کی رو سے نمازِ تراویح کی سنّت تعداد صرف وہی [8 رکعتیں ] ہوگی جسکا ذکر ہوا ہے ۔ حاشیہ ہدایہ ۱؍۱۵۱۔ شرح معانی الآثار طحاوی میں حضرت عمرِ فاروق ص کے حضرت ابیّ بن کعب اور حضرت تمیم الداری رضی اللہ عنہما کو گیارہ رکعتیں پڑھانے کا حکم دینے والی حضرت سائب بن یزیدؒسے مروی حدیث مذکور ہے، اور یہ روایت مؤطا امام مالک [ ص:۴۰ ] میں بھی موجود ہے ، اُس سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عہدِ نبوت میں آٹھ رکعتیں پڑھتے تھے اور خلیفہء ثانی حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کی سنّت بھی وتر سمیت گیارہ رکعتیں ہی ہے۔شرح معانی الآثار طحاوی ۔ ملاّ علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں کہ اسمیں شک نہیں کہ نبی ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آٹھ رکعت نمازِ تراویح علاوہ وتر کے پڑھائی تھی ۔ المرقاۃ ۲؍۱۷۵ و فی البعض ص : ۱۷۲ ۔ مولانا محمد زکریا کاندھلوی مؤطا امام مالک کی شرح أوجز المسالک میں لکھتے ہیں کہ یقیناً محدّثین کے اصول کے مطابق بیس رکعاتِ تراویح کی تعداد نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہے اوجز المسالک ۱؍۳۹۰ ۔ مولانا انور شاہ کشمیری نے تقریر ترمذی (العرف الشذی) میں لکھا ہے کہ اس بات کو تسلیم کیٔے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے آٹھ رکعاتِ تراویح پڑھی ہے ۔ العرف الشذی ص : ۳۰۹ و فی البعض ص:۳۲۹ ۔ ایک جگہ موصوف لکھتے ہیں کہ نبی ﷺ سے صحیح سند کے ساتھ آٹھ تراویح ہی ثابت ہیں اور بیس رکعتوں