کتاب: نماز تراویح فضائل و برکات تعداد رکعات ازالہ شبہات - صفحہ 65
حاشیہ پر[ رَکْعَۃً ]لکھ دیا ،اس کے بعد جب مولانا فخر الحسن کے حواشی کے ساتھ طبع کرایا گیا تو اس کے متن میں[ رَکْعَۃً ]لکھا اور اس کے اُوپر[ ن] کا نشان دے کر حاشیہ پر[ لَیْلَۃً ]لکھ دیا، تاکہ یہ تأثّر عام ہو جائے کہ یہاں نسخوں کا اختلاف ہے، اسی طرح بذل المجھودکے ساتھ سنن ابی داؤد کی طبع کے وقت متن میں [ لَیْلَۃً ]لکھا اور اُوپر[ ن] کا نشان دے کر حاشیہ پر [ رَکْعَۃً ] لکھا، اور اس کے ساتھ یہ عبارت لکھ دی [کَذَا فِيْ نُسْخَۃٍ مَقْرُوْئَ ۃٍ عَلَیٰ الشَّیْخِ مَوْلَانَا مُحَمَّد اِسْحَاق رَحِمَہٗ اللّٰہ] بغیر اس وضاحت کے کہ یہ عبارت کس کی ہے ؟ اس نسخہ کو کس نے دیکھا تھا اور کہاں دیکھا تھا اور اب وہ نسخہ کہاں ہے ؟ یاد رہے کہ یہ عبارت مولانا کی شرح کی عبارت میں نہیں بلکہ اصل کتاب یعنی سنن ابی داؤوکے حاشیہ پر لکھی گئی ہے ، پس یہ عبارت مجہول القائل ہونے کی بناء پرناقابلِ اعتماد ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس پوری کی پوری کاروائی سے یہ تاثّر دینا مقصود تھا کہ سنن ابی داؤد کے بعض نسخوں میں[عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً]موجود ہے تاکہ اس حدیث کو بیس (20)رکعات ِتراویح کے ثبوت میں پیش کیا جاسکے، لیکن شواہد کے ہوتے ہوئے اس کاروائی کو ایک قسم کی تدلیس اور تلبیس نہ سمجھا جائے تو کیا کہا جائے ؟ اگر کوئی کم فہم یہ شبہہ پیدا کرنے کی کوشش کر ے کہ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ایسے علماء کے نام پر اور انکے حواشی کے ساتھ کتابیں چھپوائی جائیں اور ان کتابوں میں ایسی تحریف کی جائے اور وہ خود یا ان کے شاگرد جوبڑے بڑے علماء ہیں، اس پر خاموش رہیں ، یہ کیسے ممکن ہے ؟تو اُنہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ یہ ممکن اور نا ممکن کی بحث بے فائدہ ہے ، دنیا میں اس سے بڑی اَن ہونی باتیں ہوچکیں اور آج تک موجود ہیں اور کسی کو بھی سوائے زبانی باتوں کے ان کی اصلاح کی توفیق نہیں ملی ، حضرت مولانا محمود الحسن صاحب سے کون واقف نہیں؟اور ان کی کتاب ’’ایضاح الادلّہ ‘‘کو کون نہیں جانتا ؟جو مولانا نے ایک اہلحدیث عالم کے جواب میں لکھی ،جب کہ اس عالم نے ردِّ تقلید پر آیت { فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَئٍ فَرُدُّوْہُ اِلیٰ اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِذٰلِکَ خَیْراً وَّأَحْسَنُ تَأْوِیْلاً٭}۔سے استدلال کیا تو مولانا نے اس کا جواب دیا اور اپنے خیال میں اس کے جواب میں ایک آیت بھی لکھ دی اور اسی اپنی پیش کردہ آیت کو مستدل بنایا ۔لیکن اس آیت کا موجود ہ کلامِ مجید میں کہیں بھی وجود نہیں، وہ لکھتے ہیں :