کتاب: نماز تراویح فضائل و برکات تعداد رکعات ازالہ شبہات - صفحہ 27
3۔ تہجد اور تراویح میں تیسرا فرق یہ بھی بتلایا جاتا ہے کہ تہجد کی مشروعیّت نصِ قرآنی سے ہوئی ہے۔ { فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ }۔( بنی اسرائیل : ۷۹ ) ۔ ’’ [ رات کے کچھ حصّہ میں ] تہجد کی نماز میں [ قرآن پڑھیں ] ‘‘ ۔ اور : {قُمِ اللَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلاً} ۔ ( المزّمّل : ۲ )۔ ’’ رات کو قیام کرو مگر تھوڑی رات میں ‘‘ ۔ اور تراویح کی مسنونیت احادیث سے ہوئی ہے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا : ((سَنَّنْتُ لَکُمْ قِیَامَہٗ) )۔ ’’ میں نے رمضان کے قیام کو مسنون کیا ‘‘ ۔ نسائی ، یہ حدیث ضعیف ہے جیسا کہ کچھ تفصیل آگے آرہی ہے ۔ مگر یہ استدلال بھی غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ مذکورہ دونوں آیتوں سے یہ تو ظاہر ہی ہے کہ تہجد اور قیام اللیل دونوں ایک ہی نماز کے نام ہیں ۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ جس قیام اللیل کی مشروعیت نصِ قرآنی سے ہو رہی ہے وہ رمضان اور غیر رمضان دونوں کو شامل ہے۔ اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے : ((جَعَلَ اللّٰہُ صِیَامَہٗ فَرِیْضَۃً وَ قِیَامَ لَیْلِہٖ تَطَوُّعاً)) ۔ سنن کبریٰ بیہقی بسند ضعیف جیسا کہ شیخ البانی نے لکھا ہے ، حاشیہ مشکوٰۃ ۱؍۶۱۳ ۔ ’’ اللہ نے اس [ رمضان ] کا روزہ فرض کیا ہے اور اس کا قیام نفل بنایا ہے ‘‘ ۔ اب( (سَنَّنْتُ لَکُمْ قِیَامَہ)) والی حدیث کو لیجیئے۔ اس میں تراویح کا لفظ نہیں ہے بلکہ [قِیَامَہٗ] قیامِ رمضان کا لفظ ہے او رنصِ قرآنی قیامِ رمضان کو بھی شامل ہے ۔ اور جب قیامِ رمضان ہی کا نام تراویح ہے تو کون کہہ سکتا ہے کہ نصِ قرآنی اس کو شامل نہیں ۔ پس حقیقت یہ ہے کہ تراویح کی مشروعیّت نصِ قرآنی ہی سے ہوئی ہے ۔ رہی((سَنَّنْتُ لَکُمْ قِیَامَہٗ))والی حدیث تو یہ سخت ضعیف ہے ۔ اس کے ایک راوی نضر بن شیبان کے متعلق ابن معین کا ارشاد ہے کہ اس کی حدیث کچھ نہیں ۔ امام بخاری اور امام دار قطنی نے بھی اس کی اس