کتاب: نماز تراویح فضائل و برکات تعداد رکعات ازالہ شبہات - صفحہ 25
ہوئے ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری (جامعہ سلفیہ بنارس) لکھتے ہیں : 10۔ ایک فرق یہ بتلا یا جاتا ہے کہ تراویح شروع رات میں پڑھی جاتی ہے اور تہجد اخیر رات میں ۔ مگر یہ محض غلط فہمی ہے ۔ تہجد اور تراویح کا وقت بالکل ایک ہے یعنی نمازِ عشاء کے بعد سے فجر کے پہلے تک۔ چنانچہ ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان مروی ہے : ’’ رسول اللہ ﷺ عشاء سے فارغ ہونے کے بعد سے فجر تک کے وقفہ میں گیارہ رکعت پڑھتے تھے ‘‘ اور دوسری روایت میں انہوں نے اس کی تفصیل یہ بتائی ہے : ’’ آپ ﷺ نے رات کے ہر حصہ میں تہجد کی نماز پڑھی ہے ۔ کبھی شروع رات میں ، کبھی درمیان رات میں ، اور کبھی اخیر رات میں ‘‘۔صحیح مسلم ۲۵۵۱ وغیرہ ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے : ’’ ہم نبی ﷺ کو رات کے جس کسی حصہ میں سوتے ہوئے دیکھنا چاہتے، دیکھ سکتے تھے ۔ اور نماز کی حالت میں دیکھنا چاہتے تو دیکھ سکتے تھے ‘‘۔ نسائی، شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ صحیح بخاری میں بھی ہے ، دیکھیئے: حاشیہ مشکوٰۃ ۱؍۳۷۹ ۔ یعنی آپ ﷺ نے تہجد کے لیٔے رات کا کوئی حصہ مثلاً ابتدائی یا درمیانی یا آخری مخصوص نہیں کررکھا تھا، بلکہ رات کے جس حصہ میں کسی روز نماز پڑھتے ،اسی حصہ میں کسی روز سوتے تھے ۔ اس طرح چند روز مسلسل آپ کو دیکھا جاتا تو رات کے ہر حصّہ میں کبھی سوتے اور کبھی جاگتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا ۔ بعینہٖ یہی معاملہ تراویح کا ہے کہ اسے رات کے جس حصہ میں چاہیں پڑھ سکتے ہیں ۔ عام لوگ سہولت کیلئے شروع رات میں پڑھتے تھے ، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اخیر رات میں پڑھتے تھے ، نبی ﷺ نے تیسری رات اور بعد میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی کبھی کبھی اسے سحری تک طول دے دیا تھا ۔ 2۔ تہجد اور تراویح میں ایک دوسرا فرق یہ بھی بتلایا جاتا ہے کہ نمازِتراویح جماعت سے پڑھی جاتی ہے اور تہجد بلا جماعت ۔