کتاب: نماز تراویح فضائل و برکات تعداد رکعات ازالہ شبہات - صفحہ 23
اللیل ادا کرنا ہرگز ثابت نہیں ہے، بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بیان کے مطابق آپ ﷺ کے تراویح کی جماعت سے فارغ ہونے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچا تھا کہ کوئی دوسری متعدد رکعتوں والی نماز پڑھی جاسکتی ۔یہی وجہ ہے کہ امام بخاری اور دیگر محدّثینِ کرام نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی قیام اللیل یا تہجد کی گیارہ رکعتوں والی نماز پر مشتمل حدیث کو کتاب التراویح میں ذکر کیا ہے۔ دلائل : 1۔ اس نماز تراویح کے ہی تہجد ہونے ،نبی ﷺ کے ماہِ رمضان میں تہجد کی جگہ صرف تراویح ہی پڑھنے اور تہجد کے نام سے دوسری کوئی نماز نہ پڑھنے کی کئی دلائل ہیں ۔ اس کی ایک واضح دلیل وہ حدیث ہے جس میں حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ ہم نے نبی ﷺ کے ساتھ ماہِ رمضان کے روزے رکھے ۔ آپ ﷺ نے ہمیں تئیسویں (23) روزے تک قیام نہیں کروایا اور اس رات جب قیام کروایا تو اتنی لمبی قراء ت فرمائی کہ پہلی رات کا ایک تہائی حصّہ اور دوسری رات کا آدھا حصّہ قیام میں ہی گزر گیا …اور تیسری رات جب آپ ﷺ نے قیام کی جماعت کروائی تو اتنی لمبی تلاوت فرمائی : ((حَتَّیٰٰ تَخَوَّفْنَا أَنْ یَّفُوْتَنَا الْفَلَّاحُ قُلَْتُ : مَا الْفَلَاحُ ؟ قَالَ: السُّحُوْرُ)) ابو داؤد ، حدیث : ۱۳۶۲ ، ترمذی ، حدیث : ۷۸۷ ، نسائی ، حدیث : ۱۳۶۴ ، صحیح ابن حبان ، حدیث : ۲۵۳۸ ، صحیح ابن خزیمہ ۳؍۳۳۸، حدیث : ۲۲۰۶ ۔ ’’ حتیٰ کہ ہم ڈر گئے کہ آج کہیں ہم [فلاح] سے ہی نہ رہ جائیں ، میں نے عرض کیا کہ [فلاح] سے کیا مراد ہے؟ تو انھوں نے فرمایا : سحری کھانا ‘‘ ۔ یہ الفاظ صحیح ابن خزیمہ کے ہیں ، جنھوں نے اسے صحیح السند قرار دیا ہے ، ڈاکٹر مصطفیٰ اعظمی نے بھی اسے صحیح کہا ہے اور علّامہ البانی نے انکے صحیح کہنے کو برقرار رکھا ہے ۔دیکھیئے: صحیح ابن خزیمہ ۳؍۳۳۸ بتحقیق الاعظمی ۔ 2۔ نبی ﷺ نے تین روز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تراویح پڑھائی اور پھر یہ سلسلہ بند کردیا اور اسکا سبب بعض روایات میں یہ بیان فرمایا :