کتاب: نماز تراویح فضائل و برکات تعداد رکعات ازالہ شبہات - صفحہ 15
طرح ہی اسکا بھی باجماعت ادا کرنا ہی افضل ہوا اور یہی تعاملِ امّت ہے ۔ حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے امام کی اقتداء میں باجماعت نمازِ تراویح ادا کرنے کو زیادہ بہتر قرار دیا ہے تو یہ دراصل نبی اکرم ﷺ کے اِس نماز کو باجماعت پڑھانے کی بناء پر ہے اورپھر آپ ﷺ کا مسلسل جماعت کرانے سے رُک جانا محض اسکے فرض ہوجانے کے خدشہ کی بناء پر تھا جو نبی ﷺ کی وفات کے بعد باقی نہ رہا، لہٰذا حضرتِ فاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک اس کا باجماعت پڑھا جانا ہی راجح ہوا تو انھوں نے اسی پر لوگوں کو جمع کردیا ۔اِس میں ایک تو وحدتِ امت کا راز پنہاں ہے، دوسرے اکثر نمازیوں کیلئے باجماعت نمازِ تراویح کا ادا کرلینا اکیلے پڑھنے کی نسبت آسان بھی ہوتا ہے ۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اکیلے اکیلے تراویح پڑھنے سے باجماعت پڑھنے کو (امثل و بہتر ) قرار دینا نبی ﷺ کے عملِ مبارک سے استنباط کیا گیا تھا جیسا کہ حافظ ابنِ حجر رحمہٗ اللہ نے ابنُ التین و غیرہ شُرّاحِ حدیث سے نقل کیا ہے اور امام بخاری رحمہٗ اللہ نے اس اثرِ فاروقی کے معاً بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی وہ حدیث وارد کی ہے جس میں وہ بیان کرتی ہیں : ((أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ صَلَّیٰ وَ ذَالِکَ فِی رَمَضَانَ )) ۔ ’’نبی ﷺ نے نمازِ (تراویح ) پڑھی اور یہ رمضان کا واقعہ ہے‘‘ ۔ ( اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ ﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھی ) ۔ بخاری ۴؍ ۲۵۰ ۔ جبکہ امام بخاری کے اس حدیث کو اثرِ فاروقی کے فوراً بعدوارد کرنے میں بھی شائد یہی راز ہے کہ حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کے عملِ مبارک سے ہی استنباط کیا تھا کہ باجماعت نمازِ تراویح ہی افضل ہے، اور حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا میں نبی ﷺ کا وہ عملِ مبارک مذکور ہے ۔ فتح الباری بتصرّف ۴؍۲۵۲ نیز دیکھیئے: صلوٰۃ التراویح للالبانی ص:۳۳۔۳۹ مترجم اردو ازمولانا محمد صادق صاحب خلیل [فیصل آباد ] جس میں موصوف نے جماعتِ تراویح کی مشروعیّت چھ احادیث سے ثابت کی ہے ۔