کتاب: نماز تراویح فضائل و برکات تعداد رکعات ازالہ شبہات - صفحہ 13
نمازِ تراویح کی جماعت :
نمازِ تراویح نہ صرف مشروع بلکہ مستحب وسنّت ہے اور اسکے استحباب کا پتہ سابقہ احادیث سے لگ جاتا ہے، خصوصاً حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے، جس میں ہے :
((کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهٖ ﷺ یُرَغِّبُ فِي قِیَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَّأْمُرَہُمْ فِیْہِ بِعَزِیْمَۃٍ )) ۔
’’نبی ﷺ قیامِ رمضان کی ترغیب دلایا کرتے تھے لیکن آپ ﷺعزیمت (وجوب ) کا حکم نہیں فرمایا کرتے تھے ‘‘ ۔
امام نووی نے شرح صحیح مسلم میں لکھا ہے کہ اہلِ علم کا اس بات پر تو اتفاق ہے کہ نمازِ تراویح مستحب و سنّت ہے ،البتہ اسمیں اختلاف پایا جاتا ہے کہ اسکااکیلے اپنے گھر میں پڑھنا افضل ہے یا کہ مسجد میں باجماعت ادا کرنا ؟ امام مالک ، ابو یوسف اور بعض شافعیہ رحمہم اللہ نے کہا ہے کہ نمازِ تراویح کا انفرادی طور پر اپنے گھر میں ادا کرنا افضل ہے اور امام شافعی ، انکے اکثر ساتھیوں ، امام احمد، امام ابو حنیفہ، امام ابن المبارک، امام اسحاق بن راہویہ، اور بعض مالکیہ کے نزدیک نمازِ تراویح کا مسجد میں باجماعت ادا کرنا افضل ہے ۔ ترمذی و التحفہ ۳؍۵۳۲ شرح النووی ۳؍۶؍۳۹ ۔ ۴۰ ، نیل الاوطار ۲؍۳؍۵۰، فتح الباری ۴؍۲۵۲ ۔
فریقِ اول ( امام مالک ، ابو یوسف اور بعض شافعیہ رحمہم اللہ ) کا استدلال بخاری و مسلم ، ابودائودو نسائی ، معجم طبرانی کبیر،مسند احمد اور صحیح ابی عوانہ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے ہے جس میں ارشادِ نبوی ﷺ ہے :
((أَفْضَلُ الصَّلوٰۃِ ، صَلوٰۃُ الْمَرْئِ فِي بَیْتِہٖ اِلَّا الْمَکْتُوْبَۃَ))۔
’’ فرض نمازکو چھوڑ کر افضل ترین نماز وہ ہے جو آدمی اپنے گھر میں پڑھے‘‘ ۔ النووی ایضاً و صحیح الجامع۱؍۱؍۳۶۶و النیل و فتح الباری ۴؍۳۵۳
جبکہ فریقِ ثانی [ جمہورِ اہلِ علم بشمول امام شافعی ، انکے اکثر ساتھیوں ، امام ابو حنیفہ ، امام احمد اور بعض مالکیہ رحمہم اللہ ] کا استدلال صحیح بخاری ،موطأ مالک ،ابن ابی شیبہ نحوہ دون قوله نعمت البدعة هذه و