کتاب: نماز تراویح فضائل و برکات تعداد رکعات ازالہ شبہات - صفحہ 12
صحیح بخاری اور دیگر کتبِ حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ایک حدیث میں نبی ﷺ کے تین راتوں کو نمازِ تراویح پڑھانے کا تذکرہ ہے اور آگے مذکور ہے :
(( فَلَمَّا کَانَتِ اللَّیْلَۃُ الرَّابِعَۃُ عَجِزَ الْمَسْجِدُ عَنَ اَہْلِہٖ حَتَیٰ خَرَجَ لِصَلَوٰۃِ الصُّبْحِ ، فَلَمَّا قَضَیٰ الْفَجْرَ اَقْبَلَ عَلیٰ النَّاسِ ، فَتَشَہَّدَ ، ثُمَّ قَالَ :
اَمَّا بَعْدُ : فَاِنَّہٗ لَمْ یَخْفَ عَلَیَّ مَکَانَکُمْ وَ لَکِنِّی خَشِیْتُ اَنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ فَتَعْجَزُوا عَنْہَا ، فتُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ وَ الْأَمْرُ عَلَیٰ ذَالِکَ )) بخاری مع الفتح ۴؍۲۵۱ ۔
’’ جب چوتھی رات آئی تو مسجدِ نبوی نمازیوں کی کثرت سے تنگ دامانی کا شکوہ کرنے لگی لیکن آپ ﷺ [ باہر تشریف نہ لائے البتہ ] جب فجر کیلئے نکلے اور نمازِ فجر سے فارغ ہوگئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر توحید و رسالت کی شہادت کے بعد فرمایا :’’مجھ پر تمہاری حالت پوشیدہ نہ تھی لیکن مجھے یہ خدشہ ہوا کہ یہ نماز کہیں تم پر فرض نہ کردی جائے اور تم اسکی ادائیگی سے عاجز آجاؤ [ اسلیٔے میں باہر نہیں نکلا تھا ] ، اور نبی ﷺ کی وفات تک نمازِ تراویح اسی طرح رہی‘‘۔
[ یعنی اسکی باقاعدہ جماعت شروع نہ ہوئی کہ صرف ایک ہی امام ہوتا، البتہ مختلف اماموں کے ساتھ جماعت ثابت ہے جیسا کہ اثرِ فاروقی آگے آرہا ہے ] ۔
صحیحین اور دیگر کتب میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بھی اسی مفہوم کی ایک حدیث مروی ہے لیکن اسمیں تین یا چار راتوں کی تعداد مذکور نہیں بلکہ :(( فَصَلَّیٰ فِیْہَا لَیَالِیْ ))کے الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے چند راتیں مسجد میں بنائے گئے حجرہ میں نمازِ تراویح پڑھی ((حَتَّیٰ اجْتَمِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ ))حتی کہ لوگ آپ ﷺ کے ساتھ نماز کیلئے جمع ہوگئے ۔ مشکوٰۃ ۱؍۴۰۵ ۔
تا ہم اِن اور اسی موضوع کی دیگر احادیث سے معلوم ہوا کہ نمازِ تراویح سنّت ہے ، واجب نہیں ۔ امام شوکانی نے کسی اختلاف کا تذکرہ کیٔے بغیر ہی بات ذکر کی ہے ۔نیل الاوطار ۲؍۳؍۹ ۴۔
اور امام نووی نے اس پر اتفاق ذکر کیا ہے ۔شرح مسلم نووی ۳؍۶؍۴۰۔