کتاب: نماز تراویح فضائل و برکات تعداد رکعات ازالہ شبہات - صفحہ 11
[آج کے بعد] جو عمل چاہے کرو ، تمہارے لیٔے جنّت واجب کردی گئی ہے ۔ یا فرمایا : تمہاری بخشش کر دی گئی ہے ‘‘ ۔
اس حدیث میں یہی مراد ہے کہ تمہارے آئندہ کے افعال پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا ’’ جو عمل چاہے کرلو ‘‘ یہ ان کی عزّت و تکریم کیلئے کہا گیا ہے ۔اور یہ عظمت اُنھیں اُنکے اُس عمل کے عوض ملی جو اُنھوں نے اوّلین معرکہء حق و باطل میں اعلائے کلمۃ الحق کیلئے سر انجام دیا، جسکے نتیجہ میں ہی انکے سابقہ تمام گناہ بھی معاف کردیئے گئے اور وہ اس کے اہل ہوگئے کہ اگر ان سے آئندہ کوئی گناہ سرزد ہوا تو اللہ انھیں وہ بھی بخش دے گا ۔للتفصیل :فتح الباری ۷؍۳۰۵ ۔۳۰۶، نیل الاوطار ۲؍۳؍۵۰۔
دوسری دلیل :
نمازِ تراویح کے سنّت ہونے کی دوسری دلیل صحیح بخاری و مسلم،ابو داؤد و نسائیاور ابن ماجہ میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی وہ حدیث ہے جس میں وہ فرماتی ہیں :
(( صَلَّیٰ النَّبِیُّ ﷺ فِیْ الْمَسْجِدِ فَصَلَّیٰ بِصَلَوٰتِہٖ نَاسٌ کَثِیْرٌ ، ثُمَّ صَلَّیٰ مِنَ الْقَابِلَۃِ فَکَثُرُوْا ثُمَّ اجْتَمِعُوْا مِنَ الْلَّیْلَۃِ الْثَالِثَۃِ فَلَمْ یَخْرُجْ اِلَیْہِمْ ، فَلَمَّا أَصْبَحَ قاَلَ :قَدْ رَأَیْتُ صَنِیْعَکُمْ ، فَلَمْ یَمْنَعْنِیْ مِنَ الْخُرُوْجِ اِلَیْکُمُ اِلَّا اَنِّی خَشَیْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ ، وَ ذَالِکَ فِی رَمَضَانَ )) ۔مسلم ۳؍۶؍۴۱۔۴۲ ، المنتقیٰ مع النیل ۳؍۴؍۵۱ ،فقہ السنّہ ۱؍۲۰۶ ۔
’’ نبی اکرم ﷺ نے مسجد میں نماز [تراویح ] پڑھی، آپ ﷺ کی اقتداء میں بکثرت لوگوں نے بھی نمازِ تراویح ادا کی، پھر اگلی رات بھی آپ ﷺ نے نماز پڑھی تو لوگوں کی تعداد میں اور اضافہ ہوگیا ۔ پھر تیسری رات بھی لوگ جمع ہوگئے ، لیکن نبی ﷺ گھر سے باہر تشریف ہی نہ لائے ۔ جب صبح ہوئی تو فرمایا: ’’میں نے رات دیکھ لیا تھا کہ تم جمع ہوئے ہو لیکن مجھے باہر آنے سے صرف اس چیز نے روک لیا کہ یہ نماز کہیں تم پر فرض نہ کردی جائے‘‘ ۔ اور یہ واقعہ ماہِ رمضان المبارک میں پیش آیا ‘‘ ۔