کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 89
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اَتباع فرماتے ہیں کہ سلام پھیرنے سے پہلے ملنے والا بھی جمعہ ہی پڑھے۔یعنی رکعت کاملہ امام کے ساتھ پائے یا رکعت سے کم اجزاء میں ملے،دونوں صورتوں میں جمعہ کی نیت کرے۔ میرے فہم ناقص میں ازروئے دلائل امام احمد رحمہ اللہ و امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہما کا مسلک صحیح اور راجح ہے اور اس کی تین وجہیں ہیں: 1۔پہلی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت اور اِس طرف گئی ہے۔چنانچہ شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں: ﴿إِنَّ الْجُمُعَۃَ لَا تُدْرَکُ إِلَّا بِرَکْعَۃٍ کَمَا اَفْتیٰ بِہٖ أَصْحَابُ رَسُوْلِ للّٰهِ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم۔مِنْھُمْ اِبْنُ عُمَرَ وَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ وَ أَنَسٌ رَضِیْ ا للّٰهُ عَنْہُمْ وَغَیْرُھُمْ وَلَا یُعْلَمُ لَہُمْ فِي الصَّحَابَۃِ مُخَالِفٌ وَقَدْحَکیٰ غَیْرُوَاحِدٍ اَنَّ ذَالِکَ اِجْمَاعُ الصَّحَابَۃِ﴾[1] جمعہ کم ازکم ایک رکعت پانے سے مل سکتا ہے،جیسے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کے ساتھ فتویٰ دیا ہے،جن سے ابن ِ عمر ص،ابن مسعود ص،انس ص وغیرہ ہیں۔صحابہ رضی اللہ عنہم میں ان کا مخالف کوئی معلوم نہیں۔اور کئی علماء نے اس پر اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم نقل کیا ہے۔ 2۔دوسری وجہ یہ ہے کہ کئی ایک حدیثوں میں صاف و صریح وارد ہے: ﴿مَنْ أَدْرَکَ رَکْعَۃً مِنْ صَلٰوۃِ الْجُمُعَۃِ وَغَیْرِھَا فَلْیُضِفْ إِلَیْھَا أُخْرٰی فَقَدْ تَمَّتْ صَلٰوتُہ‘﴾[2] جو جمعہ وغیرہ کی ایک رکعت پالے،وہ اُس کے ساتھ دوسری رکعت ملالے،اور اس کی نماز پوری ہوگئی۔ یہ حضرت ابوہریرہ صاور حضرت عبداللہ ابن عمر رضٰ اللہ عنہما کی حدیثیں کئی طریقوں سے مروی ہیں۔اور اگرچہ یہ سب حدیثیں ضعیف ہیں۔جیسا کہ ابن حجر نے تلخیص الحبیر میں کہا ہے۔ ﴿مَنْ اَدْرَکَ رَکْعَۃً مِّنَ الصَّلوٰۃِ فَقَدْ اَدْرَکَ الصَّلوٰۃَ﴾[3] مگر ان کی تائید اس حدیث سے بہت عمدہ طریقے سے ہوسکتی ہے۔جس میں ہے:جو ایک رکعت پالے اُس نے نماز پالی۔
[1] فتاویٰ ابن تیمیہ [2] نسائی۔ابن ماجہ،دارقطنی۔ [3] متفق علیہ،تلخیص الحبیر۔