کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 84
پھر ارشاد فرمایا:جب(بھی)تم سے کوئی شخص جمعہ کے دن آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو،تو اُسے چاہیئے کہ دو رکعتیں پڑھ لے۔لیکن اُن میں تخفیف سے کام لے۔اس سے یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ لوگوں کو صدقہ کی ترغیب دلانے والی تاویل صحیح نہیں،بلکہ امام نووی رحمہ اللہ نے تو اُس تاویل کو باطل قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ حدیث کے آخری صریح اور مطلق الفاظ بھی اُس تاویل کی تردید کرتے ہیں۔[1] حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ بخاری شریف کی شرح فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ مانعین کی مذکورہ تأویل کا باعث دراصل یہ ہے کہ انکے خیال میں مذکورہ احادیث(سورۂ الاعراف کی آیت ۲۰۴)میں ارشاد الٰہی: ﴿وَاِذَاقُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْ الَہ‘ وَانْصِتُوْالَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾ اور جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ سے متعارض نہیں۔اسی طرح یہ حادیث(بخاری ومسلم میں مذکور)اس ارشادِ نبوی: ﴿اِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِکَ اَنْصِتْ وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ،فَقَدْ لَغَوْتَ﴾ اگرتم نے اپنے ساتھی سے دورانِ خطبہ یہ کہا کہ چپ رہو تو تم نے لغو کا ارتکاب کیا۔ اس کے بھی مخالف ہیں۔انکا کہنا ہے کہ جب بات کرنے والے کو صرف چپ کرانامنع ہے،تو تحیۃ المسجد بھی منع ہوناچاہیئے۔ایسے ہی گردنیں پھلانگ کر گزرنے والے شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ ’’بیٹھ جاؤ تم نے دوسروں کو اذیت پہنچائی ہے‘‘۔اُن کا کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے تحیۃ المسجد کا حکم نہیں فرمایا بلکہ بیٹھ جانے کا حکم دیا تھا۔اور طبرانی میں حدیثِ ابن عمر رضی اللہ عنہما میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص داخل ہو اور امام منبر پر بیٹھ چکا ہو(یا خطبہ شروع کرچکا ہو)تو کوئی نماز نہ پڑھو،نہ گفتگو کرو،جب تک کہ وہ فارغ نہ ہوجائے۔مانعین کی طرف سے یہ کل اعتراضات ہیں دورانِ خطبہ تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں پڑھنے پر جبکہ جواز و عدم جواز کے دلائل میں جمع و تطبیق ممکن ہے اور جب اس بات کاا مکان ہو تویہ تعارض پر مقدّم ہوتا ہے،تا کہ کسی واضح دلیل کو ساقط کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔رہی سورۂ الاعراف کی آیت تو اسمیں قرآن کی تلاوت کے وقت خاموشی کا حکم ہے،جبکہ خطبۂ جمعہ سب قرآن نہیں ہوتا،اور جو آیات دورانِ خطبہ آتی ہیں انکی تلاوت کے وقت خاموشی کے عام حکم کو تحیۃالمسجد کے جواز والی احادیث سے خاص کردیا گیا ہے کہ یہ دورکعتیں جائز ہیں اور حدیث(إِذَاقُلْتَ لِصَاحِبِکَ اَنْصِتْ فَقَدْ لَغَوْتَ)میں جو ممانعت آئی ہے وہ آپس میں گفتگو کرنے کی ہے نہ کہ نماز پڑھنے کی اور اگر نماز سمیت سب کی ممانعت کا
[1] حوالہ سابقہ