کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 80
جمعہ سے پہلے سنن و نوافل کی تعداد:نمازِ جمعہ کے لئے مسجد میں پہنچنے پر اگر خطبہ شروع نہ ہوا ہو،تو نمازی کواجازت ہے کہ جتنے چاہے نوافل اداکرے،کیونکہ جمعہ سے پہلے سنن ونوافل کی کوئی تعدادمتعین نہیں،بلکہ آداب ومستحباتِ جمعہ کے ضمن میں جتنی بھی احادیث ملتی ہیں ان سب میں یہی مذکور ہے کہ اسے جتنی اللہ توفیق دے نماز پڑھے۔اور کیا جمہ سے پہلے کوئی مؤکدہ سنتیں مقرر یا متعین ہیں یا نہیں؟اس سلسلے میں اہل علم کے دو قول ہیں،احناف اور بعض شافعیہ کے نزدیک جمعہ سے پہلے بھی نمازِ ظہر کی طرح ہی سنتیں ہیں۔ان کا استدلال ابن ماجہ و طبرانی کبیر کی اُس روایت سے ہے جس میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ جمعہ سے قبل چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔اس روایت کی سند کو امام نووی رحمہ اللہ نے سخت ضعیف قرار دیا ہے اور اس سند میں مذکور ایک شخص مبشر بن عبید کو وضّاع صاحب ِاباطیل یعنی جھوٹی روایتیں گھڑنے اور باطل خبریں نقل کرنے والا قرار دیا ہے۔[1] ایسے ہی بعض مطلق احادیث سے بھی استدلال کیا گیا ہے جن میں سے ایک صحاح ستہ میں ہے: ﴿بَیْنَ کُلِّ اَذَانَیْنِ صَلاَ ۃٌ﴾[2] ہر آذان واقامت کے مابین نماز ہے۔ اس حدیث سے استدلال کے بارے میں ایک بات قابلِ غور ہے کہ جمعہ سے پہلے اس سے اگر نماز ثابت ہوتی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ مغرب کی آذان واقامت کے مابین دو رکعتیں ثابت نہیں ہوتیں۔ایک ہی حدیث کے بارے میں دو پیمانے کیوں؟ اوربا لکل یہی معاملہ دوسری مطلق حدیث کا ہے: ﴿مَا مِنْ صَلاَۃٍ مَفْرُوْضَہٍ اِلاَّوَبَیْنَ یَدَیْھَا رَکْعَتَانِ﴾[3] ہر فرض نماز سے پہلے دو رکعتیں ہیں۔ جمعہ سے پہلے دو یا چار سنتوں کے متعیّن ہونے پر اس بات سے بھی استدلال کیا گیا ہے کہ نمازِ جمعہ دراصل نمازِ ظہر کا بدل ہے لہٰذا ظہر سے پہلے جتنی سنتیں ہیں،وہی جمعہ سے پہلے بھی ہیں۔لیکن کثیر محققین نے اس قیاس کو غیر درست قرار دیا ہے،بلکہ خودفقہ حنفی کی معتبر کتاب درّ مختار میں لکھا ہے کہ جمعہ ظہر کا بدل نہیں بلکہ ایک مستقل فریضہ ہے۔[4]
[1] نیل الاوطار ۲؍۳؍۲۵۴،الفتح الربانی ۶؍۷۰ [2] ’’اثبات الرکعتیں قبل المغرب،،میں تخریج گزر چکی ہے۔ [3] ابن حبان،دارقطنی و طبرانی بحوالہ نیل ا لأوطار ایضاً۔ [4] الجمعہ ومکانتہا فی الدین،علّامہ احمد بن حجر،ص ۱۹۵ طبع قطر۔