کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 78
فتح الباری میں حافظ ابن حجرنے دو مختلف قول نقل کئے ہیں،کسی نے مرغ کی آواز نصف شب اور کسی نے آخری تہائی رات میں ذکر کی ہے۔[1] الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آسانی کے لحاظ سے جب نماز پڑھنا چاہتے،پڑھ لیتے،لیکن افضل یہ ہے کہ آخری تہائی میں تہجّدپڑھی جائے کیونکہ صحاح ستہ کی تمام ہی کتب میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ﴿یَنْزِلُ رَبُّنَا عَزَّوَجَلَّ کُلَّ لَیْلَۃٍ إِلیٰ سَمَائِ الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقٰی ثُلُثُ اللَّیْلِ الآخِرِ مَنْ یَّدْعُوْنِیْ فَاَسْتَجِیْبَ لَہ‘؟ مَنْ یَّسْأَلْنِیْ فَاُعْطِیْۃ‘؟مَنْ یَّسْتَغْفِرُنِیْ فَاَغْفِرُ لَہ‘﴾[2] جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو ہمارا بزرگ وبرتر پروردگار آسمانِ دنیا(یعنی پہلے آسمان)پر اترتا ہے۔اور کہتا ہے:ہے کوئی مجھ سے دعا ء کرنے والا کہ میں اس کی دعاء قبول کروں؟ ہے کوئی سوال کرنے والا کہ میں اسکا سوال پورا کروں؟ ہے کوئی بخشش چاہنے والا کہ میں اسے بخش دوں ؟ جبکہ نسائی،ابن خزیمہ اور مستدرک حاکم میں ارشادِ نبوی ہے کہ رات کے آخری حصہ میں بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتاہے۔[3] بخاری ومسلم،ابوداؤد،نسائی اور ابن ماجہ میں ارشادِ نبوی ہے: ﴿اَحَبُّ الصَّلوٰۃِ إِلِیٰ اللّٰہِ صَلٰوۃُدَاو‘ دَ﴾ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب نماز حضرت داؤدعلیہ السلام کی نماز ہے۔ آگے ان کی نماز کی کیفیت اور وقت بتاتے ہوئے فرمایا: ﴿کَانَ یَنَامُ نِصْفَ اللَّیْلِ ‘ وَیَقُوْمُ ثُلُثَہ‘،وَیَنَامُ سُدُسَہ‘﴾[4] وہ رات کا نصف حصہ سوتے تھے اور تہائی رات نماز پڑھتے تھے اور پھر رات کا چھٹا حصہ سوتے تھے۔ تہجد کے وقت کی طرح ہی اس کی رکعتوں کی تعداد میں بھی کوئی حدمعین نہیں،البتہ افضل یہ ہے
[1] فتح الباری ۳؍۱۷ [2] رواہ الجماعہ،فقہ السنہ سید سابق۱؍۲۰۳ [3] حوالہ سابقہ [4] بخاری مع الفتح ۳؍۱۶،فقہ السنہ۱؍۲۰۴