کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 72
قَضَیْتَ فَانِّکَ تَقْضِیْ وَلَایُقْضٰی عَلَیْکَ اِنَّہٗ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ(وَلَا یَعِزُّمَنْ عَادَیْتَ)تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ﴾ دوستوں کی طرح اپنا دوست بنالے اور جو کچھ تونے مجھے عطاء فرمایا ہے اسمیں برکت ڈال دے اورجس شرو برائی کا تونے فیصلہ فرمایا ہے اس سے مجھے محفوظ رکھ یقینا تو ہی فیصلہ صادر فرماتا ہے تیرے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جاسکتا اورجسکا تووالی بنا وہ کبھی ذلیل وخوار نہیں ہو سکتااور وہ شخص معزز نہیں ہو سکتا جسے تو دشمن کہے،اے ہمارے پروردگار توبڑاہی برکت والا اور بلند وبالا ہے۔ یہ الفاظ ابوداؤد وبیہقی میں ہیں۔[1] نسائی میں آخر میں یہ الفاظ ہیں: ﴿وَصَلّٰی اللّٰہُ عَلٰی النَّبِیِّ مُحَمَّدٍ﴾[2] اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج۔ اہلِ تحقیق کے نزدیک یہ آخری جملہ صحیح سند سے مرفوعاً ثابت نہیں البتہ حضرت ابی بن کعب اور معاذ انصاری رضی اللہ عنہماسے یہ ثابت ہے کہ عہدِ فاروقی میں لوگ دعائے قنوت کے آخر میں پڑھتے تھے لہٰذا مشروع ہے۔[3] یہ صیغہ اس وقت کیلئے ہے جب نمازی منفردہو اور اگر وہ لوگوں کو امامت کروارہا ہو تو اسے چاہیئے کہ جمع کے صیغے استعمال کر ے مثلاً﴿اَللّٰھُمَّ
[1] الفتح الربانی ۴؍۳۱۱،ارواء الغلیل ۲؍۱۷۲﴿نَسْتَغْفُرِکَ وَنَتُوْبُ اِلَیْکَ﴾کے کلمات حدیث سے ثابت نہیں ہیں۔ [2] سنن نسائی بشرح السیوطی وحاشیہ السندھی ۲؍۳؍۲۴۸ طبع دارالفکربیروت [3] زادالمعاد محقق ۱؍۳۳،ارواء الغلیل ۲؍۱۷۰۔۱۷۶،الفتح الربانی۴؍۳۱۱،صفۃصلاۃالنبی صلی اللہ علیہ وسلم ص۱۰۷