کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 70
ہوتا ہے کہ قنوت ِ نازلہ تو بلا ختلاف رکوع کے بعد ہے اور بغیر حاجت وضرورت کے جو عام دعائے قنوت(وِتروں میں)ہے وہ رکوع سے پہلے ہی صحیح ہے۔اگرچہ صحابہ کا اس سلسلہ میں اختلاف ہے۔[1]
اس موضوع کی تفصیل ہفت روزہ الاعتصام میں ابو محمد حافظ عبدالستار الحماد کے مضمون میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔[2]
نمازِ فجر میں قنوت:
کیا نما زِوِتر کے سواء دوسری کسی نماز مثلاً فجر میں بلاوجہ وبلا سبب سارا سال مسلسل قنوت پڑھی جاسکتی ہے؟
اس سلسلہ میں امام شافعی رحمہ اللہ ومالک رحمہ اللہ کا مسلک مشروعیّت کا ہے،جبکہ امام احمد رحمہ اللہ وابو حنیفہ رحمہ اللہ اسے غیر مشروع کہتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وِتروں کے سوا دعائے قنوت صرف اجتماعی مصائب کے ساتھ خاص ہے،جسے قنوتِ نازلہ کہا جا تا ہے۔
طرفین کے دلائل ذکر کرنے کے بعد علّامہ عبیداللہ رحمانی شارح مشکاۃ لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک راجح مسلک امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ واحمد رحمہ اللہ کا ہے،کیونکہ وِتروں کے سواکسی نماز میں مسلسل قنوت کرنا کسی بھی مرفوع و صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔[3]
فجر میں قنوت پر دوام بدعت ہے جیسا کہ مسند احمد،ترمذی،نسائی،ابن ماجہ،طحاوی،ابن ابی شیبہ طیالسی اور بیہقی میں حدیث ِمالک اشجعی میں ہے۔[4]
دعا ء قنوت کا طریقہ:
1۔ ایک مرفوع مگر ضعیف حدیث اور بعض آثارِ صحابہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قراء ت مکمل کرنے کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا جائے۔البتہ اللہ اکبر کہنے والی حدیث نا قابلِ حجت ہے۔
اور رفع یدین کے بارے میں محض آثارِ صحابہ رضی اﷲ عنہم ہیں،جنہیں امام ابن ابی شیبہ نے مصنف میں روایت کیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی حدیث کوئی نہیں،لہٰذا بہتر یہی ہے کہ تکبیر کہے بغیر قرا ء ت ختم کر کے
[1] فتح الباری ۲؍۴۹۱
[2] ہفت روزہ الاعتصام جلد ۴۴ شمارہ ۵ بابت ۲۵ رجب ۱۴۱۲ھ بمطابق ۳۱ جنوری ۱۹۹۲ء
[3] المرعاۃ ۳؍۲۲۰
[4] الا رواء ۲؍۱۸۶ وصحّحہ،المرعاۃ ۳؍۲۲۳