کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 69
متعددآراء: الغرض قنوتِ وِتر کے متعلق علمائے حدیث کی مندرجہ ذیل آراء ہیں: ۱۔ غیر ہنگامی(جیسے وِتر کی)دعاء کے متعلق حافظ ابن حجررحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ قنوت ِوِتر کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر یہی ثابت ہے کہ رکوع سے پہلے ہے البتہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کا عمل اس سے کچھ مختلف ہے۔بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کا اختلاف اپنے اندر جواز کا پہلو رکھتا ہے یعنی رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دونوں طرح جائز ہے‘‘۔[1] ۲۔ علّامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وِتر میں قنوت،رکوع سے پہلے اور بعد دونوں طرح جائز ہے۔میرے نزدیک بہتریہ ہے کہ رکوع کے بعد کی جائے‘‘[2] ۳۔ علّامہ عبیداللہ رحمانی فرماتے ہیں: ’’قنوتِ وِتر رکوع سے پہلے اور بعد دونوں طرح جائز ہے البتہ میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ رکوع سے پہلے کی جائے،کیونکہ اس کے متعلق بکثرت احادیث منقول ہیں‘‘۔[3] ۴۔ محدّث العصرالشیخ علّامہ محمد ناصر الدین البانی لکھتے ہیں: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی وِتر میں دعا ء کرتے تو رکوع سے پہلے اس کا اہتمام کرتے‘‘[4] مزید لکھتے ہیں: ’’حاصلِ کلام یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے پایہء ثبوت کے ساتھ جو صحیح بات منقول ہے وہ یہ کہ وِتر میں دعائے قنوت رکوع سے پہلے ہو‘‘۔[5] ہاں اگر وِتر کی دعا ء کو ہنگامی حالات کے پیش ِ نظر قنوت نازلہ کی شکل دے دی جائے۔تو رکوع کے بعد جواز کی گنجائش ہے۔کیونکہ ایسا کرنا صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے ثابت ہے۔ مختصر یہ کہ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دونوں جگہوں میں سے جہاں بھی کوئی دعا ء قنوت کر لے،جائز ہے البتہ قبل ازرکوع اولیٰ ہے۔کیونکہ حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے محلِّ قنوت کے بارے میں جتنی روایات آئی ہیں،انکے مجموعے سے معلوم
[1] فتح الباری ۲؍۴۹۱ [2] تحفۃ الاحوذی ۱؍۲۴۳ [3] مرعاۃ المفاتیح ۳؍۲۱۴۔ [4] صفۃ الصلوٰۃ ص۱۷۹ طبع جدید [5] ارواء الغلیل ۲؍۱۶۲