کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 62
امام احمد رحمہ اللہ نے فصل ووصل دونوں کو صحیح قرار دیا ہے مگر فصل کی احادیث کو اصحّ واثبت واکثر کہا ہے اور اسے ہی اختیار کیا ہے۔[1] امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی یہی مسلک ہے کہ دو رکعتوں اور تیسری میں تشہّد وسلام سے فصل کرنا تینوں کو وصل سے پڑھنے کی نسبت افضل ہے۔[2] رکعاتِ وِتر میں قراء ت:نماز ِوِتر کی تینوں رکعتوں میں ہی سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کی کوئی چھوٹی سورت یا کسی بڑی سورت کا کوئی حصہ پڑھنا ہوتا ہے اور اس کی پابندی تو کوئی نہیں کہ کون کون سی سورتیں یا کن سورتوں کا کونسا حصہ پڑھا جائے؟ البتہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان رکعتوں میں بعض سورتوں کی قراء ت ثابت ہے اگر ان پر عمل کیا جائے تو مسنون ومستحب اور زیادہ ثواب کا موجب ہے،چنانچہ ابوداؤد،نسائی،ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ عنہ سے ترمذی ودارمی میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے اور مستدرک حاکم میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وِتروں کی پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ اعلیٰ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَ عْلَیٰ﴾دوسری رکعت میں سورہ کافرون۔﴿قُلْ یَٰٓایُّھَا الْکٰفِرُوْنَ﴾اور تیسری رکعت میں سورہ اخلاص﴿قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ﴾پڑھا کرتے تھے۔[3] دارقطنی،طحاوی ا ورمستدرک حاکم کی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ تیسری رکعتِ وِتر میں﴿قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ﴾کے ساتھ ہی﴿قُلْ أَعُوْذُبِرَبِّ الْفَلَقِ﴾اور﴿قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾بھی پڑھا کرتے تھے۔[4] (معوِّذتَین)کے اس اضافے پر بعض محدّثین نے کلام کیا ہے،لیکن امام حاکم نے اس اضافے والی حدیث کو نہ صرف صحیح کہا ہے بلکہ اس کو بخاری و مسلم کی شرط پر پوری اترنے والی قرار دیا ہے لہٰذا کبھی کبھی(مُعَوِّذَتَیْن)کا تیسری رکعت میں اضافہ کرنا بھی جائز ہے۔[5]
[1] الفتح الربانی ۴؍۲۹۵۔۳۰۳،زادالمعاد۱؍۳۳۰ [2] للتفصیل:المرعاۃ۳؍۲۰۰ [3] شرح السنہ وتحقیقہ۴؍۹۸۔۹۹،نیل الاوطار ۲؍۳؍۴۲،الفتح الربانی ۴؍۳۰۵ [4] شرح السنہ۴؍۹۹ [5] للتفصیل التحفہ ۲؍۵۶۰-۵۶۱،صِفہ صلوٰۃ النبی صلي اللّٰه عليه وسلم للالبانی