کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 61
﴿کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم یُوْتِرُ بِثَلاَثٍ لاَ یَقْعُدُ اِلَّافِیْ آخِرِہِنَّ﴾[1] نبی صلی اللہ علیہ وسلم تین وِتر اس طرح پڑھتے تھے کہ ان میں آخری رکعت کے سوا تشہّد کیلئے نہیں بیٹھتے تھے۔ امیر المؤمنین حضرت عمرِ فاروق رضی اﷲ عنہ او راہلِ مدینہ کا عمل اسی پر ہے اورحافظ ابن حجر کے بقول کئی سلفِ امت نے تین رکعتیں ایک تشہّد سے پڑھی ہیں اور آگے متعدد روایات بھی نقل کی ہیں۔[2] صرف ایک تشہّد سے تین وِتر پڑھنے کے جواز کی تائید بخاری ومسلم کی ان احادیث سے بھی ہوتی ہے،جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پانچ اور سات وِتروں کو ایک ہی تشہّد سے پڑھنے کا ذکر ہے۔[3] تین رکعتوں کو ایک سلام مگر دو تشہّدوں سے ادا کرنے کی دلیل علّامہ ابن حزم نے المحلّٰی میں اپنی سند کے ساتھ نقل کی ہے جو کہ نسائی شریف،مستد رک حاکم اور بیہقی میں بھی ہے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں: ﴿اَنَّ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم کَانَ لَا یُسَلِّمُ فِیْ رَکْعَتَی الْوِتْرِ﴾ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وِتر کی دو رکعتوں کے بعد سلام نہیں پھیرا کرتے تھے۔ بظاہر تو یہ حدیث بھی ایک تشہّد وسلام سے تین وِتر پڑھنے والوں کی واضح دلیل ہے اس سے دو تشہّدوں کا ثبوت کیسے مل گیا؟[4]۔واللہ اعلم مستدرک حاکم کے الفاظ ہیں: ﴿یُوْتِرُ بِثَلاَثٍ لاَ یُسَلِّمُ اِلاَّفِیْ آخِرِھِنَّ﴾[5] آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین وِتر پڑھتے اور صرف انکے آخر میں ہی سلام پھیرتے۔
[1] الفتح الربانی۴؍۲۹۴ فی الشرح،التحفہ ۲؍۵۵۳ [2] انظر فتح الباری ۲؍۴۸۱ [3] مشکاۃ۱؍۳۹۴ [4] للتفصیل المرعاۃ ۳؍۲۰۱۔۲۰۲ [5] شرح السنہ وخاصتہ ً تحقیقہ ۴؍۸۳۔۸۴،المحلّٰی ۲ ؍۳؍۴۸