کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 56
نورکعات: صحیح مسلم وابوداؤد،نسائی اور مسند احمد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا اور بعض دیگر صحابہ سے ایسی روایات بھی مذکور ہیں جن سے نووِتروں کی مشروعیّت کا پتہ چلتا ہے۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہافرماتی ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پانی اور مسواک تیار کرکے رکھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اللہ چاہتا،نیند سے بیدار کر دیتا،تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کر کے وضو ء کرتے۔ ﴿وَیُصَلِّیْ تِسْعَ رَکْعَاتٍ لَایَجْلِسُ فِیْہَا اِلَّافِیْ الثَّامِنَۃِ﴾ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں اس طرح پڑھتے کہ انکے مابین صرف آٹھویں رکعت کے بعد تشہّد کیلئے بیٹھتے۔ اس قعدہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذکر الٰہی اور تحمید بیان کرتے اور اﷲسے دعا کرتے،پھر سلام پھیرے بغیر ہی(نویں رکعت کیلئے)کھڑے ہو جاتے اور نویں رکعت پڑھ کر آپ قعدہ ثانیہ(تشہّد اخیر)کیلئے بیٹھتے،اس قعدہ میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذکرِ الٰہی وتحمیدِ باری تعالیٰ کے علاوہ دعا ء کرتے،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم(کچھ آواز کے ساتھ اسطرح)سلام پھیرتے کہ ہمیں سلام سنا دیتے تھے۔اسی حدیث میں آگے یہ بھی مذکور ہے کہ جب پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر رسیدہ ہوگئے اور گوشت کچھ بڑھ گیا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات وِتر پڑھتے تھے۔[1] گیارہ رکعات وِتر: ترمذی شریف میں امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وِتروں کی تیرہ گیار ہ،نو،سات،پانچ،تین اور ایک رکعت مروی ہیں۔[2] الغرض جو صاحب جتنی رکعتیں پڑھنا چاہے اسے اختیار ہے۔بخاری ومسلم کی صحیح احادیث میں مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً گیارہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے تیرہ رکعتوں والی حدیث کے بارے میں حافظ ابن حجر وغیرہ شارحین نے لکھا ہے کہ ان میں دو رکعتیں وہ ہیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیام اللیل کا افتتاح فرمایا کرتے تھے یا پھر عشاء کی دو سنتیں ہیں کیونکہ وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر جا کر ہی پڑھا کرتے تھے۔[3]
[1] النیل ۲؍۳؍۲۷،شرح السنہ۴؍۸۰،الفتح الربانی۴؍۲۹۷-۲۹۸ [2] الترمذی مع التحفہ ۲؍۵۴۵ مدنی،مستدرک حاکم ۱؍۳۰۶ وقال:واصحہا وِترہ(ص)برکعتہ واحدۃ،انظر:قیام اللیل للمروزی ص۸۸،فتح الباری ۲؍۲۷۹-۲۸۰ [3] فتح الباری ۲؍۴۸۴،الفتح الربانی ۴؍۴۷۹-۲۹۹