کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 55
﴿وَمَنْ أَحَبَّ اَنْ یُّوْتِرَ بِثَلاَثٍ فَلْیَفْعَلْ﴾[1] اور جوشخض تین وِتر پڑھنا چاہے وہ تین پڑھ لے۔ پانچ رکعات: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وِتروں کی پانچ رکعتیں بھی ثابت ہیں جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے: ﴿کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم یُصَلِّیْ مَنْ اللَّیْلِ ثَلاَثَ عَشَرَۃَ رَکْعَۃً یُوْتِرُ مِنْ ذَالِکَ بِخَمْسٍ وَلَا یَجْلِسُ فِیْ شَیئٍ مِنْھُنَّ اِلاَّفِيْ آخِرِہِنَّ﴾[2] نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور ان میں سے پانچ و تر ہوتے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان(پانچ وِتروں)کے مابین نہیں بیٹھتے تھے بلکہ صرف آخرمیں ایک ہی تشہّد بیٹھتے تھے۔ سات رکعات: بعض احادیث میں وِترکی پانچ رکعتوں کے علاوہ سات رکعتوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ابوداؤ د،نسائی،اور ابن ماجہ میں حضرت ابوا یواب انصاری رضی اﷲ عنہ سے مروی حدیث میں تو پانچ،تین اور ایک رکعت کا ذکر ہے۔[3] جبکہ نسائی وابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت ام المؤمنین ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے: ﴿کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم یُوْ تِرُ بِسَبْعٍ وَخَمْسٍ وَلَایَفْصِلُ بَیْنَھُنَّ بِسَلاَمٍ وَلاَ کَلاَمٍ﴾[4] نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سات اور کبھی پانچ وِتر بھی پڑھتے تھے اور ان سب کے درمیان میں سلام اور کلام سے فصل نہیں کرتے تھے۔ یعنی پانچوں یاساتوں رکعتیں ایک ہی سلام سے پڑھتے تھے۔وِتر کی پانچ اور سات رکعتوں کی مشروعیّت کا پتہ دینے والی اور بھی کئی احادیث ہیں۔[5]
[1] مشکاۃ ۱؍۳۹۶ و صحّحہ،النیل ۲؍۳؍۲۹-۳۰۔ [2] نیل الاوطار ۲؍۳؍۳۶،شرح السنہ ۴؍۷۷۔۷۸،مشکاۃ۱؍۳۹۴ [3] مشکاۃ۱؍۳۹۶،وصحّحہ،نیل الاورطار۲؍۳؍۲۹ [4] نیل الاوطار ۲؍۳؍۳۶ [5] انظرالنیل ۲؍۳؍۳۷۔