کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 54
اِس سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت وِتر کی اجازت شایدصرف اس شکل میں دی ہے جبکہ صبح ہوجانے کا اندیشہ ہو ورنہ نہیں۔اس سلسلہ میں عرض ہے کہ’’ اندیشے کی قید‘‘ والی حدیث میں پائے جانے والے اس اشکال یا اعتراض کا حل خود بخاری شریف کی ہی ایک اگلی حدیث میں مذکور ہے،جس میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں: ﴿فَاِذَاأَرَدْتَّ اَنْ تَنْصَرِفَ فَارْکَعْ رَکْعَۃً﴾[1] جب تو نماز سے پھرنا چاہے(یعنی نماز کو ختم کرنا چاہے)تو ایک رکعت وِتر پڑھ لو۔ اس حدیث کے الفاظ نے ایک رکعت وِتر کی مشروعیت میں اندیشے کی قید یاشرط کا ازالہ کر دیا اور واضح کر دیا کہ نمازی اپنی نما زکو مکمل کر کے جب بھی اپنی جگہ سے پھرنا چاہے تو ایک رکعت وِتر پڑھ سکتا ہے۔[2] تین رکعات: اب آیئے تین رکعت نماز ِوِتر کے دلائل دیکھیں۔چنانچہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ صیقہ رضی اﷲ عنہا جس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کی رکعتوں کے حسن و طول کا ذکر کرتی ہیں،اسی حدیث میں ہے: ﴿ثُمَّ یُصَلِّیْ ثَلاَثاً﴾[3] پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعات(وِتر)پڑھتے تھے۔ اسی طرح صحیح مسلم،ترمذی،نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت ابنِ عباس رضی اﷲ عنہما،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کے ذکر میں فرماتے ہیں: ﴿ثُمَّ اَوْتَرَ بِثَلاَثٍ﴾[4] پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین وِتر پڑھے تھے۔ اسی طرح ابوداؤد،نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت ابوایوب انصاری رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
[1] بخاری مع الفتح ۲؍۴۷۸ [2] ایک رکعت وِتر پربتیراء ہونے کا اعتراض اور اس کا علمی ردنیل الاوطار۲؍۳؍۳۲۔۳۳ طبع بیروت،محلی۳۳ طبع بیروت،محلی ابن حزم ۲؍۳؍۵۴ طبع بیروت بتحقیق احمدشاکر میں دیکھیں۔ [3] بخاری مع الفتح ۳؍۳۳،تحفہ الأحوذی ۲؍۵۴۹،النیل ۲؍۳؍۳۵ [4] تحفۃ الاحوذی ۲؍۵۴۹