کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 52
اسی طرح ابوداؤد،نسائی اور ابن ماجہ میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ وِتر ہر مسلمان پر حق(ثابت)ہے،جو شخض پانچ رکعتیں پڑھنا چاہے وہ پانچ پڑھ لے،جو شخص تین وِتر پڑھنا پسند کرے وہ تین پڑھ لے: ﴿وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یُّوْتِرَ بِوَاحِدَۃٍ فَلْیَفْعَلْ﴾[1] جوشخص صرف ایک ہی وِتر پڑھنا چاہے تو وہ ایک ہی پڑھ لے۔ ایسے ہی صحیح مسلم اور مسند احمدمیں حضرت عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہم سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ﴿اَلْوِتْرُ رَکْعَۃٌ فِیْ آخِرِ اللَّیْلِ﴾[2] وِتررات کے آخری حصہ میں ایک رکعت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح بخاری ومسلم وغیرہ میں مذکور ان ارشادات کے علاوہ کئی صحابہ رضی اﷲ عنہم کے آثار سے بھی وِتر کی ایک رکعت کا ثبوت ملتا ہے مثلاً صحیح بخاری شریف میں حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہماسے مروی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ امیر المؤمنین حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک رکعت وِتر پڑھا؟ تو حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: ﴿اَصَابَ فَاِنَّہ‘ فَقِیْہٌ﴾ ان کاعمل مبنی بر صواب وصحیح ہے اور بلاشبہ وہ فقیہہ شخص ہیں۔ بخاری شریف میں ہی ایک روایت میں ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے عشاء کے بعد ایک رکعت وِتر پڑھی،اس وقت انکے پاس حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما کے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک شخص موجود تھا۔وہ ابن عباس رضی اﷲ عنہما کے پاس آئے اور انہیں(ایک رکعت وِتر پڑھنے کی)خبردی تو حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہمانے فرمایا:
[1] مشکاۃ وصحّحہ۱؍۳۹۶،نیل الاوطار۲؍۳؍۲۹۔۳۰ [2] نیل الاوطار ۲؍۳؍۳۳،تحفۃ الاحوذی ۲؍۵۵۶ مدنی