کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 51
اس سلسلہ میں سب سے پہلی بات تویہ ہے کہ یہ تطوُّع یعنی سنن ونوافل اور وِتر،قضاء ہوجائیں تو انہیں پڑھاجائے گا یا نہیں ؟اسمیں اہلِ علم کی پانچ آراء امام شوکانی نے ذکر کی ہیں۔[1] راجح قول یہ ہے کہ ان کی قضاء بھی ہوسکتی ہے جیسا کہ فجر کی دوسنتوں اور ظہر کی پہلی اور پچھلی سنتوں کی قضاء والی احادیث شاہد ہیں۔[2] لہٰذا سوئے رہنے یا بھول جانے کی شکل میں وِتروں کا وقت بتاتے ہوئے ابوداؤد،ترمذی،مسنداحمد اور مستدرک حاکم وغیرہ میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ﴿مَنْ نَامَ عَنِ الْوِتْرِ اَوْنَسِیَہ‘ فَلْیُصَلِّ اِذَا اَصْبَحَ اَوْذَکَرَہ‘﴾[3] جو شخص وِتر سے سویا رہ جائے یابھول جائے تو وہ انہیں صبح کے وقت یا پھر جب یاد آجائے،پڑھ لے۔ تعدادِ رکعتِ وِتر: نماز ِوِتر کی رکعتوں کے بارے میں عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ ان کی تعداد تین ہے اور یہی زیادہ ترمعمول بہ ہیں ‘جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وعمل سے صحیح احادیث میں انکی تعداد صرف تین ہی نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف ایک وِتربھی ا ورتین،پانچ،سات اور نو رکعتیں بھی ثابت ہیں اور اس سے زیادہ کا پتہ بھی چلتا ہے۔ ایک رکعت وِترِ کی مشروعیّت: صرف ایک رکعت کے بارے میں صحیح بخاری ومسلم اور سننِ اربعہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ رات کی نماز(تہجد)کیسے ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ﴿صَلوٰۃُ اللَّیْلِ مَثْنیٰ مَثْنیٰ فَاِذَاخِفْتَ الصُّبْحَ فَاَوْتِرْ بِوَاحِدَۃٍ﴾[4] رات کی نماز دو دو رکعتیں کر کے ہے اور جب تمہیں صبح ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت وِتر پڑھ لو۔
[1] النیل ۲؍۳؍۲۶ [2] النیل ۲؍۳؍۲۶،زادالمعادو تحقیقہ۱؍۳۰۹،الضعیفہ للالبانی ۲؍۳۵۲،الارواء۲؍۱۸۸،۱؍۲۹۴،محلی ابن حزم ۱؍۲؍۲۹۴،۲؍۳؍۲۔۶،نصب الرایۃ ۲؍۱۵۷-۱۶۰ [3] ترمذی مع التحفہ ۲؍۵۶۸ تحفہ ۲؍۵۶۸۔۵۷۰ مدنی،المشکاۃ ۱؍۳۹۷۔۳۹۹۔الارواء ۲؍۱۵۳،نیل الاوطار ۲؍۳؍۴۷۔۴۸ بذل المجھود ۴؍۳۳۷ طبع ثالث بیروت [4] رواہ الجماعہ،النیل ۲؍۳؍۳۱،مشکاۃ ۱؍۳۹۴