کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 49
عدم نقض: جبکہ صحابہ کی دوسری ایک جماعت اس بات کی قائل رہی ہے کہ پہلے پڑھے ہوئے وِتروں کو توڑانہ جائے اور پچھلی رات اٹھ جانے پر دو دو رکعتیں کر کے ہی پڑھتا رہے۔ان میں سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا،انکے والد خلیفہء اوّل حضرت ابوبکر صدیق،حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عمارہ وغیرہ صحابہ رضی اﷲ عنہم ہیں: قائلینِ نقض: جس جماعت کا خیال ہے کہ ایک رکعت پڑھ کر رات کی نماز ِوِتر کو شفع یعنی جفت کر لے اور آخر میں وِتر پڑھے،تا کہ رات کی آخری نماز وِتر ہوجائے اور جفت بنالینے کی شکل میں ایک رات میں دو دفعہ ِوِتر پڑھنے کی نوبت نہ آئے۔ان کا استدلال ان احادیث سے ہے،جن میں سے ایک تو ابوداؤد،ترمذی اور نسائی میں ہے،جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ﴿لَاوِتْرَانَ فِيْ لَیْلَۃٍ﴾[1] ایک رات میں دو وِتر نہیں۔ دوسری حدیث صحیح بخاری وغیرہ میں ہے،جس میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ﴿اِجْعَلُوْاآخِرَ صَلاَتِکُمْ بِاللَّیْلِ وِتْراً﴾[2] رات کی اپنی آخری نماز وِتر کو بناؤ۔ ان دونوں حدیثوں سے وجۂ استدلال یہ ہے کہ وِتر کورات کی آخری نماز بنانے کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اور رات کو وِتر پڑھ کر سونے والا جب سحری کو اٹھ جائے تو اس حدیث کی رو سے وہ نفل نہیں پڑھ سکتا اور اگر نفل پڑھنے لگے اور آخر میں پھر وِتر پڑھے تو پہلی حدیث کے خلاف ہوجاتا ہے کہ اس نے ایک رات میں دو دفعہ وِتر پڑھ لئے،لہذا ان کے نزدیک ایسے شخص کو پہلے پڑھے ہوئے وِترتوڑ دینے چاہییں۔ قائلینِ عدم نقض: جبکہ صحابہ کی دوسری جماعت جو اس بات کی قائل ہے کہ ایسا شخص صرف نفل ہی پڑھتا رہے‘ اسے دوبارہ وِتر پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔صحابہ کی اس جماعت کا مذہب ہی راجح ہے،کیونکہ اکثر اہلِ علم اسی کے قائل ہیں،چاروں آئمہ کا بھی یہی مسلک ہے۔سفیان ثوری اور ابن المبارک
[1] شرح السنہ ۴؍۹۳۔۹۴ وتحقیقہ و صحّحہ محقّقوہ وحسنہ الحافظ فی الفتح ۲؍۴۸۱ دار الإفتاء [2] بخاری مع الفتح ۲؍۴۸۸