کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 33
حدیث نمبر۱:صحاح سِتہ یعنی صحیح بخاری ومسلم،ابوداؤد،ترمذی،نسائی،ابن ماجہ،دار قطنی ا ور ابن خزیمہ میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
﴿بَیْنَ کُلِّ اَذَانَیْنِ صَلوٰۃ’‘ بَیْنَ کُلِّ اَذَانَیْنِ صَلْوٰۃ﴾
ہرآذان واقامت کے مابین(دو رکعت)نماز ہے۔ہر آذان واقامت کے مابین(دو رکعت)نماز ہے۔
راویٔ حدیث حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
﴿قَالَہَا ثَلاَثاً وَقَالَ فِیْ الثَّالِثَۃِ لِمَنْ شَائَ﴾[1]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ تین مرتبہ کہے اور تیسری مرتبہ یہ بھی فرما دیا کہ جسکا جی چاہے پڑھے(یعنی موکّدہ نہیں ہیں)۔
کبار علماء ِاحناف میں سے علّامہ سندھی ابن ماجہ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں جو حکم دیاگیا ہے اسکا عموم نمازِ مغرب کو بھی شامل ہے اور حدیث ِانس رضی اﷲ عنہ وغیرہ میں تو مغرب کے فرضوں سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کی واضح صراحت موجود ہے لہٰذا اس عمل کو مکروہ کہنے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے۔[2]
حاشیہ نسائی میں وہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اور اس جیسی دوسری احادیث مغرب کے فرضوں سے پہلے دو رکعتوں کے جوازبلکہ ُندب واستحباب پر دلالت کرتی ہیں۔[3]
علماءِ احناف میں اختلاف ہے،بعض نے انہیں مستحب کہا ہے جیسا کہ علّامہ سندھی وغیرہ ہیں۔الکوکب الدری میں صحیح اسے ہی قرار دیا گیا ہے کہ اگر ان سے تکبیرِ تحریمہ کے چھوٹنے کا اندیشہ نہ ہو تو ان کا پڑھنا مستحب ہے۔[4]عرب ممالک میں آذانِ مغرب کے بعد باقاعدہ دو رکعتوں کیلئے وقفہ
[1] بخاری مع الفتح ۲؍۱۰۲ و۲؍۱۱۰،مسلم مع النووی ۶؍۱۶۴،ابوداؤد مع العون ۴؍۱۶۲،ترمذی مع التحفہ ۱؍۵۴۸،ابن ماجہ ۱؍۳۶۸،ابن خزیمہ ۲؍۲۶۶،دارقطنی ۱؍۲۶۶،نسائی ۱؍۲؍۲۸۔
[2] حاشیہ ابن ماجہ بحوالہ المر عاۃ ۲؍۱۰۰۔
[3] حاشیہ نسائی للسندھی مع شرح السیوطی ۱؍۲؍۲۸،ابن خزیمہ،طبع دارالفکربیروت۔
[4] الکوکب الدری ۱؍۱۰۳ بحوالہ فقہ السنہ اردو ۱؍۲۵۳۔