کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 32
﴿اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم کَاَنَ یُصَلِّیْ قَبْلَ الْعَصْرِ رَکْعَتَیْنِ﴾[1]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم عصر سے پہلے دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔
لہٰذادونوں طرح ہی جائز ہے چاہے تو چار سنتیں پڑھ لے یا دو اور یہ سب ہیں بھی غیر مؤکّدہ۔عصر سے پہلے چار سنتوں کی بڑی فضیلت آئی ہے۔متن میں ان کے پڑھنے والے کیلئے دعائے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم﴿رَحِمَ اللّٰه﴾گزری ہے۔طبرانی کبیر واوسط میں ہے:
﴿لَمْ تَمُسُّہ‘ النَّارُ﴾
اسے آگ نہیں چھوئے گی۔
حلیہ ابو نعیم میں ہے:
﴿غَفَرَ اللّٰہُ لَہ‘﴾
اللہ اسے بخشے۔
ابو یعلی میں ہے:
﴿بَنَی اللّٰہُ لَہ‘ بَیْتاً فِی الْجَنَّہِ﴾
اللہ اس کے لئے جنت میں گھر بنا دیتا ہے۔
طبرانی کبیر میں ہے۔:
﴿حَرَّمَ اللّٰہُ بَدَنَہ‘ عَلٰی النَّارِ﴾[2]
اللہ اس کا جسم آگ پر حرام کر دیتاہے۔
﴿فَلْیَتَنَا فَسْں اِلْمُتَنَا فِسُوْنَ۔وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ﴾
مغرب کے فرضوں سے پہلے دو سنتیں(غیر مؤکّدہ):
نماز ِمغرب کے فرضوں کے بعد دو سنتیں تو مؤکّدہ ہیں جنکا ذکر سننِ راتبہ کے ضمن میں ہو چکا ہے۔مغرب کے فرضوں سے پہلے بھی دو رکعتیں صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔اگر چہ وہ غیر مؤکّدہ ہیں۔لیکن ان کا ادا کرنا سنت و مستحب ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے(خود عمل کیا)اور لوگوں کو ان کا حکم فرمایا اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم یہ دو رکعتیں بڑی کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔لیکن آج مسلمانوں کی اکثریت اس سنت کوچھوڑے ہوئے ہے۔اور اگر کوئی شخص اس پر عمل کرتا ہے تو اسے تعجب سے گھُرا اور معیوب سمجھا جاتا ہے۔حالانکہ ان دو رکعتوں کا ثبوت متعدد صحیح احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آثار صحابہ رضی اﷲ عنہم وتابعین سے ملتا ہے۔مثلاً:
[1] ابوداؤد مع العون ۴؍۱۵۰ وحسنہ اللالبانی فی المشکاۃ،۱؍۳۶۸ و الارناؤوط فی تحقیق زاد المعاد،۱؍۳۱۱
[2] انظرللتفصیل:عون المعبود ۴؍۱۴۹