کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 31
اس طرح ظہر کی کل رکعتیں بارہ ہوگئیں،چار سنتیں پہلے پھر چار فرض اور چارہی بعد میں۔اس حدیث میں جو حیثیت پہلی چار سنتوں کی ہے،وہی بعد والی چاروں کی ہے۔لہٰذا بعد والی چار کعتوں میں جو دوسنتیں اور دو نفل کا فرق کیا جاتا ہے وہ تو ثابت نہیں۔ہاں یہ کہا جا سکتا ہے۔کہ چاہے تو چار سنتیں پڑھ لے یا دو پر ہی اکتفا کر لے جیسا کہ فرضوں سے پہلے کی سنتوں میں اختیار اور وسعت ہے البتہ اکثر اوقات اور بعض اوقات کی جو تفصیل گزری ہے وہ سامنے رکھنا زیادہ مناسب ہے۔
نمازِ عصر کے ساتھ مؤکّدہ سنتیں تو کوئی نہیں البتہ غیر مؤکّدہ سنتوں کا پتہ چلتا ہے۔اس سلسلہ میں بھی دو طرح کی احادیث ہیں۔بعض میں چار سنتوں کا ذکر ہے اور بعض میں صرف دو رکعتیں ہی مذکور ہیں۔چنانچہ ابوداؤد،ترمذی،مسند احمد اورشرح السنہ بغوی میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
﴿رَحِمَ اللّٰہُ امْرَئً صَلَّی قَبْلَ الْعَصْرِ اَرْبَعاً﴾[1]
اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کر ے جو نماز عصر کے فرضوں سے پہلے چار رکعتیں پڑھتا ہے۔
اسی طرح ترمذی،نسائی،ابن ماجہ اور مسنداحمد میں حضر ت علی رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے:
﴿کَاْنَ رِسُوْلُ اللّٰہ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم یُصَلِّی قَبْلَ الْعَصْرِ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ ‘یَفْصِلُ یَیْنَھُنَّ بِالتَّسْلِیْمِ﴾[2]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور انکے مابین(دو رکعتوں کے بعد)سلام پھیر کر فصل کیا کرتے تھے۔
یعنی اکٹھی چار ایک سلام سے نہیں بلکہ درمیان میں بھی سلام پھیرتے تھے۔لیکن جائز دونوں طرح ہی ہے جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔[3]
ابو داؤد میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے ہی مروی ہے:
[1] شرح السنہ ۳؍۴۷۰ وحسنہ محققوہ وصحّحہ ابن خزیمہ،جامع الاصول ۷؍۱۹،مشکاۃ ۱؍۳۶۷ وحسنہ الالبانی
[2] صحیح ابن خزیمہ ۲؍۲۱۸ وحسنہ للالبانی،شرح السنہ۲۶۷-۲۶۸ وحسنوہ وحسنہ الترمذی،مشکوۃ مع المرعاۃ ۴؍۱۴۹ حدیث ۴۲۹۔۵۹۸،۵۹۹ صحیح الترمذی ۱؍۱۳۵ لالبانی،المشکاۃ ۱؍۳۶۸،جامع الاصول ۷؍۱۹،مسنداحمد ۱؍۷۵۔۱۴۳۔۱۴۶۔وصحّحہ احمد شاکر المصری ۱؍۴۹۴،سننِ ابن ماجہ ۱؍۳۶۷ حدیث ۱۱۶۱
[3] دیکھئے عنوان ’’نمازِ ظہر کی سُننِ راتبہ‘‘۔