کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 25
6۔ اسی طرح مجمع الزوائد میں طبرانی کبیر کے حوالہ سے ایک متکلّم فیہ روایت ہے جسے علّامہ شمس الحق عظیم آبادی شارح ابوداؤد اپنی کتاب’’ اعلام اھل العصرباحکام رکعتی الفجر ‘‘میں ابن الاثیر کے حوالہ سے لائے ہیں اوراسے صحیح قرار دیا ہے۔اس میں حضرت ثابت بن قیس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:میں مسجد میں داخل ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو میری طرف متوجہ ہوئے جبکہ میں فجر کی پہلی سنتیں پڑھ رہاتھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھنے لگے،جب میں سنتوں سے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
﴿اَلَمْ تُصَلِّ مَعَنَا؟﴾
کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟
میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!یہ فجر کی دو سنتیں پڑھی ہیں کیونکہ میں گھر سے پڑھ کر نہیں آیا تھا را ویٔ واقعہ صحابی ر ضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
﴿فَلَمْ یُعِبْ ذَالِکَ عَلَيَّ﴾[1]
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کی وجہ سے مجھ پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔
ان سب احادیث[2] میں اس بات کی واضح صراحت موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کئی مرتبہ فرضوں کے بعدا ٹھ کر فجر کی پہلی سنتیں پڑھی گئیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر بھی اعتراض نہیں بلکہ بعض کا﴿فَلَا اِذَنْ﴾کہہ کر جواب دیا کہ تب پھر کوئی حرج نہیں اور بعض کی وضاحت پر کہ یہ سنتیں تھیں آپ خاموش ہو گئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی کا ثبوت ہے۔التمھید لا بن عبدالبر میں سہل بن سعدالساعدی رضی اﷲ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:
﴿وَکَانَ اِذَارَضِیَ شَیْئاً سَکَتَ﴾
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کام پر رضا مند ہوتے تو خاموشی اختیار فرماتے تھے۔
ورنہ ناجائز کام ہوتا دیکھ کر خاموشی اختیار کر لینا تو شانِ نبوت اور مقامِ رسالت کے منانی ہے۔لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور روک دیتے۔مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا۔
[1] اعلام اھل العصر ص۲۳۱ علّامہ شمس الحق عظیم آبادی
[2] حضرت عطاء طاؤس اورا بن جریج رحمہم اللہ کے ارشادات جن سے جواز کا پتہ چلتا ہے انکی تفصیل مصنف عبدالرزاق جلد دوم ص۴۴۲ پر دیکھی جا سکتی ہے۔