کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 23
﴿مَنْ لَّمْ یُصَلِّ رَکْعَتَی الْفَجْرِ حَتَّی تَطْلَعَ الشَّمْسُ فَلْیُصَلِّھِمَا﴾[1]
جس نے سورج طلوع ہونے تک فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں،وہ طلوعِ آفتاب کے بعد پڑھ لے۔
فرضوں کے بعد پڑھنے کے دلائل:
علاوہ ازیں طلوعِ آفتاب سے پہلے ہی،فرضوں کے بعد سنتیں ادا کرلینے کی اجازت کا پتہ اور عدم ِکراہت کی دلیل خود حدیث ِشریف میں موجود ہے۔
چنانچہ حدیثِ شریف میں یہ تو ہے کہ فجر کی نماز سے لیکر طلوعِ آفتاب تک کوئی نماز نہیں۔لیکن بعض دیگر احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حکم عام نفلی نماز کا ہے۔
1۔ فجر کی فرضوں سے پہلی سنتیں اس حکم سے مستثنیٰ ہیں،وہ فرضوں کے بعد اور طلوعِ آفتاب سے پہلے بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔جیسا کہ ابوداؤ دو ترمذی ابن ماجہ،ابن خزیمہ،ابن حبان،دار قطنی،بیہقی،مستدرک حاکم،مصنف عبدالرزاق،ابن ابی شیبہ اور مسنداحمد سمیت حدیث کی دس معتبر کتابوں میں حضرت قیس بن عمَرو رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم(اپنے گھر سے)نکلے تو نماز(فجر)کی اقامت کہی گئی،میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہو کر(صحابہ کی طرف)رخِ انور کیا تو مجھے پھر نماز پڑھتے ہوئے پایا توارشاد ہوا:
﴿مَہْلاً یَا قَیْسُ أَصَلاَ تَانِ مَعاً؟﴾
اے قیس!ٹھہرو،کیا ایک ہی وقت میں دونمازیں پڑھو گے؟
تو میں نے عرض کیا۔اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں فجر کی پہلی دوسنتیں نہیں پڑھ سکا تھا،تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
﴿فَلاَ اِذَنْ﴾ٓ[2]
تو پھر کوئی حرج نہیں۔
2۔ محلّٰی ابن حزم میں حضرت عطاء کسی انصاری صحابی رضی اﷲ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ نمازِ فجر کے بعد نماز پڑھ رہا ہے(نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر)اس نے بتایا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے فجر کی سنتیں نہیں پڑھی تھیں اب وہی پڑھی ہیں۔
[1] نیل الأوطار ۲؍۳؍۲۵
[2] ابوداؤد مع العون ۴؍۱۴۴،ترمذی مع التحفہ ۲؍۸۸۔۴۸۷،ابن ماجہ ۱؍۳۶۵،ابن خزیمہ ۲؍۱۶۴،ابن ابی شیبہ ۲؍۲۵۴