کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 22
﴿مَنْ لَّمْ یُصَلِّ رَکْعَتیَ الْفَجْرِ فَلْیُصَلِّھَا بَعْدَ مَا تَطْلَعُ الشَّمْسُ﴾[1]
جس نے فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہو ں تو وہ طلوعِ آفتاب کے بعد پڑھ لے۔
دارقطنی وحاکم کے الفاظ ہیں۔
﴿مَنْ لَّمْ یُصَلِّ رَکْعَتَی الْفَجْرِ حَتّٰی تَطْلَعَ الشَّمْسُ فَلْیُصَلِّھَمَا﴾[2]
جو شخص طلوع آفتاب تک فجر کی سنتیں نہ پڑھ چکا ہو تو وہ(اب سورج نکلنے)پر پڑھ لے۔
ترمذی شریف والی اس روایت کوشارح ترمذی علّامہ عبدالرحمن نے غیرمحفوظ قرار دیا ہے۔[3]
ایسے ہی ابن ابی شیبہ میں آثار صحابہ رضی اﷲ عنہم کے ضمن میں اور مؤطا امام مالک میں بلاغات ِامام صاحب میں سے ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کی فجر کی سنتیں فوت ہوگئیں تو انہوں نے وہ طلوع آفتاب کے بعد پڑھیں۔[4]
جواب:
یہ اثر تو عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے فعل پر موقوف ہے البتہ پہلی روایت مرفوع ہے مگر اس کا متن غیر محفوظ ہے۔اس کے علاوہ امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں لکھا ہے کہ یہ روایت اس بات پر بھی صریح دلالت نہیں کرتی کہ جو شخص انہیں فرضوں سے پہلے نہ پڑھ سکا ہو،وہ طلوعِ آفتاب سے پہلے انہیں نہ پڑھے بلکہ اس حدیث میں صرف اتنا کہا گیا ہے کہ جس نے مطلقاً سنتیں نہ پڑھی ہوں تو وہ سورج نکلنے کے بعد انہیں پڑھ لے اور اس میں شک نہیں کہ اگر وہ وقتِ ادا میں چھوٹ گئی ہوں تو وقتِ قضا ء میں پڑھی جائیں گی۔اور حدیثِ مذکور میں ایسی کوئی چیز نہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہو کہ ان کا فرضوں کے بعد پڑھنا منع ہے،جیسا کہ دارقطنی وبیہقی اور حاکم کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے:
[1] ترمذی مع التحفہ ۲؍۴۹۳،جامع الأصول لابن الاثیر ۷؍۱۷
[2] التحفہ أیضاً
[3] التحفہ ۲؍۴۹۳
[4] مؤطا مع التنویر للسیوطی ۱؍۱۴۸،التحفہ ۲؍۴۹۴،جامع الأصول۷؍۱۷