کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 21
فرضوں کا استثناء بھی صرف مردوں کیلئے ہے عورتوں کی ہر نماز گھر میں ہی افضل ہے۔[1]
سنن ونوافل گھروں میں پڑھنے کی اس فضیلت کے ساتھ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر میں نفلی نماز نہ پڑھنے پر وعید بھی فرمائی ہے چنانچہ صحیح بخاری ومسلم اور ترمذی میں ا رشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
﴿صَلُّوْا فِیْ بُیُوْ تِکُمْ وَلَا تَتَّخِذُوْھَاقُبُوْراً﴾[2]
اپنے گھروں میں بھی سنن ونوافل پڑھو اور انہیں قبریں نہ بنادو۔
علّامہ مبارکپوری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اسکا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص گھر میں کوئی نفل یا سنتیں نہیں پڑھتا تو اس نے اپنے آپ کو گویا میت اور گھر کو قبر بنا لیا ہے۔[3]
ان ارشادات ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کیا جائے تب تو اقامت ہو چکنے پر فجر کی سنتیں جماعت کے بعد پڑھنے کی نوبت ہی نہیں آتی اور اگر کوئی شخص گھر سے سنتیں پڑھے بغیر مسجد میں آئے اور مسجد میں پہنچنے پر اقامت ہو جائے تو پھر اسے سنتیں پڑھنے میں مشغول نہیں ہو نا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے اور کتب حدیث میں ایک بھی صحیح ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں ملتا جس میں اس بات کی اجازت دی گئی ہو کہ جماعت کے ہوتے ہوئے سنتیں پڑھی جا سکتی ہیں بلکہ بقول علّامہ ابن حزم جماعت کے ہوتے ہوئے سنتوں کے جواز کی دلیل نہ تو قرآن میں ہے نہ کسی صحیح حدیث میں حتیٰ کہ نہ ضعیف میں اور نہ ہی قیاس واجماع میں۔[4]
فجر کی سنتوں کی قضاء کب؟
اب رہی یہ بات کہ اقامت ہو جانے تک جس نے سنتیں نہ پڑھی ہو ں تو پھر وہ کب پڑھے؟
اس کا جواب دو قسم کی احادیث میں ملتا ہے۔ایک وہ جن میں طلوعِ آفتاب کے بعد سنتیں پڑھنے کا ذکر ہے جیسا کہ ترمذی شریف کی ایک روایت میں ہے:
[1] نیل الأوطار۲؍۳؍۱۳۰۔۱۳۲،إرواء الغلیل۲؍۲۹۳،الأحادیث الصحیحۃ للالبانی ۳؍۳۸۶،حجاب المراۃ المسلمۃ ابن تیمیہ ص۷۵ ھامش الالبانی
[2] الترمذی التحفۃ ۵۳۱۔۵۳۲
[3] التحفۃایضاً ص۵۳۱
[4] المحلّٰی ۳؍۱۰۵