کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 19
رضی اﷲ عنہم وتابعین رحمہ اللہ [1] سے پتہ چلتا ہے کہ جب کسی نماز کی تکبیر ہو جائے تو پھر پہلی سنتیں پڑھنے
میں مشغول نہیں ہونا چاہیئے اور نمازِ فجر کی پہلی دو سنتوں کے بارے میں تو یہ حکم بطورِ خاص ذکر ہوا ہے جیسا
کہ مؤطا امام مالک میں صراحت موجود ہے کہ مذکورہ ارشاد ہی فجر کی سنتوں کے بارے میں ہے۔
لہٰذا نمازِ فجر کی اقامت تک جس شخص نے سنتوں کا کافی حصہ پڑھ لیا ہو اور تشہّد وغیرہ باقی ہو تو وہ پوری کر کے جماعت سے مل جائے کیونکہ یہ آخری حصہء نماز سجود وتشہّد وغیرہ مُتَمِّمَات و مکَمِّلاتِ نماز سے ہیں،نماز نہیں لہٰذا وہ﴿فَلاَصَلٰوۃَ﴾کی نفی میں داخل نہیں۔[2]
اگر کسی نے ابھی شروع ہی کی ہوں اور تکبیر ہو جائے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کی رو سے اسے چاہیے کہ سنتوں کی نیت توڑ کر فرضوں کی جماعت میں شامل ہو جائے اور سنتیں بعد میں پڑھ لے۔
بیہقی کی ایک روایت میں﴿فَلاَ صَلوٰۃَ اِلاَّا لْمَکْتُوْبَۃَ﴾کے بعد﴿اِلَّا رَکْعَتَی الْفَجْرِ﴾کا اضافہ بھی ہے جسکے بارے میں خودا مام بیہقی نے کہا ہے:
﴿ھَذِہٖ الزِّیَادَۃُلااَصْلَ لَھَا﴾[3]
اس زیادتی(اضافی الفاظ)کی کوئی اصل نہیں ہے یعنی لااصل ہے۔
جماعت کھڑی ہونے کے بعد اگر کوئی شخص سنتیں پڑھتا تو حضرت عمرِ فاروق رضی اﷲ عنہ اس کو مارتے(سزا دیتے تھے)اور ابنِ عمر رضی اﷲ عنہما اسے کہتے[4]:
اَتُصَلِّیْ الصُّبْحَ اَرْبَعاً [5]
کیا تم فجر کی چار رکعتیں پڑھتے ہو؟
امام ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق کا قول ممانعت والا ہی ہے۔[6]
[1] ان آثار کی تفصیل کیلئے دیکھیے مصنف ابن ابی شیبہ ۲؍۷۷۔۷۸۔۷۹،طبع الدارالسلفیہ بمبئی،مصنف عبدالرزاق۲؍۴۳۶۔۴۴۴
[2] مجلہ جامعہ ابراہیمیہ،سلسلہ۱۴دسمبر۱۹۸۷ء فتویٰ مولانا محمد علی جانباز
[3] نیل الاوطار ۲؍۳؍۹۶
[4] فتح الباری ۲؍۱۵۰،مصنف عبدالرزاق ۲؍۴۳۶،محلی ۳؍۱۱۰،بیہقی ۲؍۴۸۳
[5] المصنف أیضاً ومجمع الزوائدللہیثمی ۲؍۴۸۳،أعلام الموقعین علّامہ ابن القیم ۲؍۳۵۶ میں بھی یہ منقول ہے۔
[6] تحفۃ الأحوذی