کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 18
امام نووی فرماتے ہیں کہ اگرچہ سنتیں پڑھنے کے بعد جماعت مل جانے کی توقع ہوتب بھی اس ارشادِ نبو ی صلی اللہ علیہ وسلم کی رو سے اقامت ہوجانے کے بعد سنتیں پڑھنے کا آغاز کرنا ٹھیک نہیں۔[1]
ایک حدیث مسندا حمد،مستدرک حاکم،بیہقی،صحیح ابن خزیمہ وابن حبان وغیرہ میں ہے۔حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہاتھا اور مؤذن نے تکبیر کہنا شروع کیا تو بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کھینچتے ہوئے فرمایا:
﴿أَ تُصَلِّیْ لصُّبْحَِ أَرْبَعاً﴾[2]
کیا تم صبح کی چار رکعتیں پڑھتے ہو؟
اس میں بھی واضح انکار موجود ہے۔صحیح بخاری ومسلم کی متفق علیہ حدیث میں اقامت ہو جانے کے بعد سنتیں پڑھنے والے شخص کو فرمایا تھا:
﴿أاَلصُّبْحُ اَرْبَعاًأَا لصُّبْحُ اَرْبَعاً﴾[3]
کیا صبح کی چار،کیا صبح کی چار رکعتیں ہو گئی ہیں؟
جبکہ صحیح مسلم کے الفاظ ہیں:
﴿اَتُصَلِّیَ الصُّبْحَ اَرْبَعاً﴾[4]
کیا تم صبح کی نماز چار رکعتیں پڑھتے ہو۔
صحیح ابن خزیمہ،مؤطا امام مالک اور مسند بزار میں ہے کہ جب نماز کی تکبیر کہی گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نکلے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ(تکبیر ہوجانے کے باوجود)کچھ لوگ سنتیں پڑھ رہے ہیں تو فرمایا:
﴿صَلَاتَانِ مَعاً؟
کیا دو نمازیں ایک ساتھ پڑھتے ہو؟
وَنَہیَ اَنْ تُصَلَّیَا اِذَااُقِیْمَتِ الصَّلٰوۃُ﴾[5]
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامت ہو جانے کے بعد ان سنتوں کو پڑھنے سے منع فرما دیا۔
صحیح بخاری ومسلم سمیت کتب ِحدیث میں اس موضوع کی بکثرت احادیث اور آثار صحابہ
[1] شرح مسلم نووی۳؍۵؍۲۲۵
[2] فتح الباری۲؍۱۵۰،تحفۃ الاحوذی ۲؍۴۸۲،النیل ۲؍۳؍۸۶
[3] نیل الاوطار ۲؍۳؍۸۶،مختصر صحیح بخاری لللالبانی۱؍۱۲۹
[4] صحیح مسلم۳؍۵؍۲۲۳
[5] ابن خزیمہ بتحقیق الدکتور مصطفٰی الاعظمی۲؍۱۷۰،مؤطا مع تنویر الحوالک للسیوطی۱؍۱۴۸،فتح الباری ۲؍۱۴۹،ترمذی مع التحفہ ۲؍۴۸۲