کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 17
﴿وَلَا رَکْعَتِیَ الْفَجْرِ﴾[1]
نہیں فجر کی سنتیں بھی نہیں پڑھ سکتے۔
بیہقی کی اس حدیث کو حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں نقل کر کے اسے حسن قرار دیا ہے۔[2]
ایسے ہی امام زرقانی نے شرح مؤطا میں اور علّامہ عبدالحی لکھنوی نے التعلیق الممجد علی مؤطا امام محمد میں بھی اس کے حسن ہونے کا اعتراف کیا ہے۔
اسی طرح صحیح بخاری ومسلم اور نسائی و ابن ماجہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ نمازِ فجر کی اقامت کے بعد نماز پڑھ رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ گفتگو کی جو دوسرے نہ سن سکے۔نماز سے فارغ ہو کر صحابہ رضی اﷲ عنہم نے پو چھا،تو اس شخص نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا تھا:
﴿یُوْشِکُ اَنْ یُّصَلِّیْ اَحَدُ کُمْ اَرْبَعاً﴾[3]
قریب ہے کہ تم میں سے کوئی شخص فجر کی چار رکعتیں پڑھنے لگے گا۔
امام نووی نے شرح مسلم میں وضاحت کی ہے کہ یہ استفہامِ انکاری ہے یعنی اقامت ہوجانے کے بعد سنتیں پڑھنے والے کے فعل کو غیر درست قرار دیا۔[4]
ایسے ہی صحیح مسلم،ابوداؤد،نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ میں حدیث ہے کہ ایک شخص فجر کے وقت مسجد میں داخل ہوا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز پڑھا رہے تھے ا س شخص نے مسجد کے کسی کونے میں دو سنتیں پڑھیں پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جماعت میں شریک ہوا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو فرمایا:
﴿یَافُلاَنُ بِاَییِّ الصَّلَاَتَیْن اِعْتَدَدْت اَبِصَلَاتِکَ وَحْدَکَ اَو بِصَلَا تِکَ مَعَنَا﴾[5]
اے فلاں تو نے فرض نماز کس کو گنا؟وہ نماز جو تم نے اکیلے پڑھی یا وہ جو ہمارے ساتھ پڑھی؟
[1] نیل الاوطار۲؍۳؍۸۴
[2] النیل۲؍۳؍۸۴
[3] بخاری مع الفتح ۲؍۵؍۲۲۲،نسائی باب مایکرہ من الصلاۃ عند إلاقامۃ ابن ماجہ ۱؍۱۴۹
[4] نووی ۳؍۵؍۲۲۳
[5] مسلم مع النووی ۳؍۵؍۲۲۴،ابوداؤدمع العون۴؍۱۴۲،نسائی باب فیمن یصلی رکعتی الفجر والإمام في الصلوٰۃ،ابن ماجہ۱؍۳۶۴