کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 16
واجب البتہ علّامہ ابن حزم نے محلّٰی میں اسے واجب کہا ہے اور نیل الاوطار میں امام شوکانی کا میلان بھی اسی طرف ہے۔[1]
مگر صحیح بخاری ومسلم کی حدیث ِعائشہ رضی اﷲ عنہا:
﴿کَانَ النَّبِیُّ اِذَا صَلَّی رَکْعَتی الْفَجْرِ فَاِنْ کُنْتُ مُسْتَیْقِظَۃ فَحَدَّثَنِیْ وَاِلَّا اضْطَجَعَ﴾
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی سنتیں پڑھ لیتے تو اگر میں جاگ رہی ہوتی تو مجھ سے باتیں کرتے ورنہ لیٹ جاتے۔
قرینہ صارفہ عن الوجوب ہے۔[2]
وقتِ ادائیگی:
نمازِ فجر کی دونوں سنتوں کی بہت زیادہ فضیلت واہمیت ہے اور انکی ادائیگی کا وقت نمازِ فجر کی اقامت ہو جانے تک ہے جب اقامت ہو جائے اور جماعت ہونے لگے تو اس وقت پھر جماعت سے مل جانا چاہیے اور سنتیں بعد میں پڑھ لینی چاہییں کیونکہ اقامت ہو جانے پر اس فرض نماز کے سوا دوسری کوئی نماز نہیں ہوتی چاہے وہ فجر کی سنتیں ہی کیوں نہ ہوں۔کیونکہ صحیح مسلم،ابوداؤد،ترمذی،ابن ماجہ اور دیگر کئی کتب ِحدیث میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
﴿اِذَا اُقِیْمَتِ الصَّلٰوۃَ فَلاَصَلوٰۃَ اِلاَّ الْمَکْتُوْبَۃِ﴾[3]
جب نماز کی تکبیر ہوجائے تو سوا اس فرض نماز کے دوسری کوئی نماز نہیں ہوتی۔
مسندا حمد کی روایت میں:
﴿اِلاَّ(الْمَکْتُوْبَۃِ)الَّتِی اُقِیْمَتْ لَھَا﴾[4]
سوائے اس فرص نماز کے کہ جس کی جماعت ہو رہی ہے۔
کے الفاظ بھی ہیں۔
بیہقی کی ایک روایت میں ہے کہ کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔
کیا اقامت ہو جانے کے بعد فجر کی دوسنتیں بھی نہیں پڑھ سکتے؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] راجع النیل والمحلّٰی لابن حزم
[2] انظرفتح الباری حافظ ابن حجر عسقلانی والتحفہ للمبار کپوری
[3] مختصر مسلم ص۷۴،ابوداؤد مع العون ۴؍۱۴۳،ترمذی مع التحفہ۲؍۴۸۱ نیل الاوطار ۲؍۳؍۸۶
[4] النیل ۲؍۳؍۸۴