کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 15
دائیں پہلو پر لٹینا:
فجر کی ان دوسنتوں کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں پہلو پرلیٹ جایا کرتے تھے۔جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم،ابوداؤد،نسائی،ترمذی،ابن ماجہ اور مسنداحمد میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہاسے مروی ہے:
﴿کَاْنَ النَّبِیُّ صلی اللّٰهُ علیہ وسلم اِذَا صَلَّی رَکْعَتَی الْفَجْرِ اِضْطَجَعَ عَلٰی شِقِّہٖ الْاَیْمَنِ﴾[1]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی دوسنتیں پڑھنے کے بعد اپنے دائیں پہلو پر(تھوڑا سا)لیٹ جایا کرتے تھے۔
ترمذی وابوداؤد میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
﴿اِذَا صَلَّی اَحَدُ کُمْ رَکَعْتَی الْفَجْرِ فَلْیَضْطَجِعْ عَلٰی یَمِیْنِہٖ﴾[2]
جب تم میں سے کوئی شخص فجر کی سنتیں پڑھ چکے تو اسے چاہیئے کہ اپنے دائیں پہلو پرلیٹ جائے۔
اس لیٹنے کے بارے میں اہل علم کی مختلف آراء ہیں جن کی تفصیلات عون المعبود شرح ابوداؤد(۴؍۴۰۔۱۳۸)،تحفہ الاحوذی شرح ترمذی(۲؍۸۔۴۷۶)،سبل السلام شرح بلوغ المرام(۲؍۳۸۶)زادالمعادلابن قیم(۳۱۸۔۳۲۱محقق)اور مغنی ابن قدامہ(۲؍۱۲۷)میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
اس مسئلہ میں برصغیر پاک وہند کے معروف حنفی فاضل علّامہ انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ العرف الشذی شرح ترمذی میں لکھتے ہیں۔ہمارے(یعنی احناف کے)نزدیک صبح کی سنتوں کے بعد لٹینا جائز ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا لیٹنابطریقِ عبادت نہیں بلکہ بطریقِ عادت تھا اور میں جس چیز کا قائل ہوں وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت کی بھی پیروی کرتا ہے تو وہ ثواب سے بہر حال محروم نہیں رہ سکتا۔[3]
علّامہ انورشاہ کے ان الفاظ سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ لیٹنا بہر حال کا رثواب ہے کیونکہ یہ عادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تھی۔اور اگر کوئی شخص نہیں لیٹتاجیسا کہ آج کل عموماً ہو رہا ہے تو وہ اس ثواب سے تو محروم رہے گا۔مگر(نہ لیٹنا)کوئی گناہ نہیں۔کیونکہ احادیث کی روسے یہ فعل مستحب یا مسنون ہے نہ کہ
[1] الفتح الربانی۴؍۲۲۸،نیل الاوطار۲؍۳؍۲۱
[2] ترمذی مع التحفہ۲؍۴۷۶،ابوداؤد مع العون للعظیم آبادی ۴؍۱۳۸ طبع بیروت تحقیق عبدالرحمن محمد عثمان شرح السنہ ۳؍۶۱۔۴۶۰
[3] بحوالہ فقہ السنہ محمد عاصم اردو ۱؍۲۴۹