کتاب: نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد - صفحہ 11
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
﴿اِفْتَرَضَ اللّٰہُ عَلٰی عِبَادِہٖ صَلَواتٍ خَمْساً﴾
اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔
اس شخص نے پوچھا کہ ان کے آگے یا پیچھے(یعنی کوئی اور نماز)تو فرض نہیں؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پہلے ارشاد کوہی دہرایا کہ اللہ نے اپنے بندوں پر صرف پانچ ہی نمازیں فرض کی ہیں۔تب اس شخص نے قسم اٹھاتے ہوئے عہد کیا کہ میں نہ توان میں اضافہ کروں گا اور نہ ہی کمیِ(اور جب اس پختہ عہد کا اظہار کرکے وہ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے رخضت ہوا تو)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
﴿اِنْ صَدَقَ لَیَدْ خُلَنَّ الْجَنَّۃَ﴾[1]
اگر اس نے اپنے عہد کو سچ کر دکھایا تو ضرور جنت میں داخل ہوجائے گا۔
ان دونوں حدیثوں میں ہی پانچ فرض نمازوں کا واضح ثبوت موجود ہے اور انہیں ہی ’’نمازِپنجگانہ‘‘ کہا جاتا ہے۔جن کے الگ الگ نام یعنی صبح یا فجر‘ظہر‘عصر‘مغرب‘اور عشاء کا ذکر احادیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں معروف ہے۔
اب رہی نماز پنجگانہ کی فرض رکعتوں کی تعداد ‘ تو اسکا ذکر بکثرت احادیث میں آیاہے۔مثلاً بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے:
﴿فَرَضَ اللّٰہُ الصَّلَاۃَ حِیْنَ فَرَضَہَا رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ اَتَمَّہَافِیْ الْحَضْرِِفَاُقِرَّتْ صَلاَۃُ السَّفَرِ عَلٰی الْفَرِیْضَۃِ اُلأُوْلیٰء﴾[2]
اللہ نے شروع میں جب نماز یں فرض کیں تو وہ دو رکعتیں تھیں پھر قیام کی حالت میں اسے مکمل(موجودہ تعداد میں)کر دیا البتہ سفر کی صورت میں وہی پہلا فریضہ(دو گانہ)برقرار رہا۔
[1] مسلم،ترمذی،نسائی واللفظ لہ،جامع الاصول۶؍۱۳۰۔۱۳۱
[2] جامع الاصول۶؍۱۳۱،مسلم مع النووی۳؍۵؍۱۹۴