کتاب: نماز نفل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 51
فرمایا : ( اَلْوِتْرُ حَقٌّ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ ، فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یُّوْتِرَ بِثَلاَثٍ فَلْیَفْعَلْ ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یُّوْتِرَ بِوَاحِدَۃٍ فَلْیَفْعَلْ )
ترجمہ : ’’ نمازِ وتر ہر مسلمان پر حق ہے ، لہذا جو شخص تین وتر پڑھنا چاہے وہ تین پڑھ لے ، اور جو شخص ایک وتر پڑھنا چاہے وہ ایک پڑھ لے ‘‘
[ ابو داؤد : ۱۴۲۲ ، النسائی : ۱۷۱۲ ، ابن ماجہ : ۱۱۹۰ ۔ وصححہ الألبانی ]
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ( اَلْوِتْرُ لَیْسَ بِحَتْمٍ کَصَلاَتِکُمْ الْمَکْتُوْبَۃِ، وَلٰکِنْ سُنَّۃٌ سَنَّہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم )
ترجمہ : ’’ وتر فرض نماز کی طرح ضروری نہیں ، بلکہ یہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت ہے ‘‘
[ الترمذی : ۴۵۴ ، النسائی : ۱۶۷۷ ، وغیرہما ۔ وصححہ الألبانی ]
اور وتر کے واجب نہ ہونے اور اس کے سنتِ مؤکدہ ہونے کی ایک اور دلیل حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ اہلِ نجد میں سے ایک آدمی ‘ جس کے بال بکھرے ہوئے تھے ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، ہم اس کی آواز تو سنتے تھے لیکن جو کچھ وہ کہتا تھا وہ ہماری سمجھ سے باہر تھا ، وہ آیا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ کر اسلام کے بارے میں سوال کرنے لگا ، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ! مجھے خبر دیجئے کہ اللہ تعالی نے مجھ پر کتنی نمازیں فرض کی ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا :
( اَلصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ إِلاَّ أَنْ تَطَوَّعَ شَیْئًا )
’’ پانچ نمازیں ہی فرض ہیں ، الا یہ کہ تم کچھ نفل نماز پڑھو ‘‘
اس نے کہا : مجھے خبر دیجئے کہ اللہ تعالی نے مجھ پر کتنے روزے فرض کئے ہیں ؟ رسول