کتاب: نماز نفل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 20
طلب کرو ۔‘‘[ البخاری : ۳۹ ] اور ایک روایت میں اس کے الفاظ یوں ہیں : ( لَنْ یُّدْخِلَ أَحَدًا عَمَلُہُ الْجَنَّۃَ ) ’’ کسی شخص کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا ۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ کو بھی نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( لاَ ، إِلاَّأَنْ یَّتَغَمَّدَنِیْ اللّٰہُ بِفَضْلٍ وَّرَحْمَۃٍ ، فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا ، وَلاَ یَتَمَنّٰی أَحَدُکُمْ الْمَوْتَ ، إِمَّا مُحْسِنًا فَلَعَلَّہُ أَنْ یَّزْدَادَ ، وَإِمَّا مُسِیْئًا فَلَعَلَّہُ أَنْ یَسْتَعْتِبَ ) ترجمہ : ’’ نہیں ، سوائے اس کے کہ اللہ تعالی اپنے فضل اور اپنی رحمت کے ساتھ مجھے ڈھانپ لے ، لہذا تم درمیانی راہ پر چلتے رہو ، اور حسب طاقت درستگی کی کوشش کرو ، اور قریب رہو ، اور تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے ، کیونکہ اگر وہ نیک ہو گا تو شاید اس کی نیکی میں اضافہ ہو جائے ، اور اگر وہ برا ہو گا تو شاید وہ توبہ کر لے ۔‘‘[ البخاری : ۵۶۷۳ ، مسلم : ۲۸۱۶ ۔ واللفظ للبخاری ] اور دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( سَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا، وَاغْدُوْا وَرُوْحُوْا ، وَشَیْئًا مِّنَ الدُّلْجَۃِ ، وَالْقَصْدَ الْقَصْدَ تَبْلُغُوْا ) [البخاری : ۶۴۶۳ ] ترجمہ : ’’ تم میانہ روی اختیار کرو ، ( اعتدال کے ) قریب رہو ، اور صبح کے وقت بھی عبادت کرو ، اور شام کے وقت ( دوپہر کے بعد ) بھی ، اور اسی طرح رات کے کچھ حصے میں بھی عبادت کرو ، اور میانہ روی ہی اختیار کرنا تاکہ تم منزل مقصود تک پہنچ جاؤ ۔‘‘ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بارے میں