کتاب: نماز نفل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 183
( أَلاَ رَجُلٌ یَتَصَدَّقُ عَلٰی ہٰذَا فَیُصَلِّیْ مَعَہُ ) ’’ کیا کوئی آدمی ہے جو اس پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے ! ‘‘ [ احمد : ۳/۴۵ ، ۵/۴۵ ، ابو داؤد : ۵۷۴ ، الترمذی : ۲۲۰ ، الحاکم : ۱/۲۰۹ ، ابن حبان :۲۳۹۷ ، ابو یعلی :۱۰۵۷۔ وصححہ الألبانی فی الإرواء : ۵۳۵] اور ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ یہ حدیث ان احادیث میں سے ایک ہے جو کسی سبب کی بناء پر نماز دوبارہ پڑھنے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں ، اور اس میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک آدمی نے صدقہ کرتے ہوئے اکیلے نماز پڑھنے والے شخص کے ساتھ نماز دوبارہ پڑھی تاکہ اسے جماعت کا ثواب مل جائے ، اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ممنوع اوقات میں نماز دوبارہ پڑھی جا سکتی ہے ، جبکہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نہیں پڑھی جا سکتی ۔ [ مجموع فتاوی شیخ الإسلام ابن تیمیہ : ۲۳/۲۶۱ ، ۲۳/۲۵۹ ۔ نیز نیل الأوطار : ۲/۳۸۰ ، المغنی لابن قدامہ : ۲/۵۱۵ ، المختارات الجلیہ فی المسائل الفقہیۃ للسعدی : ۵۰ ، الشرح الممتع لابن عثیمین : ۴/۱۷۵ ] اور وہ امور جن میں نوافل ‘ فرائض سے جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں وہ علامہ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الشرح الممتع : ۴/۱۸۴۔۱۸۷ میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔