کتاب: نماز نفل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 18
سوتی اور یہ اپنی نماز کا تذکرہ کر رہی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( مَہْ ، عَلَیْکُمْ مَّا تُطِیْقُوْنَ مِنَ الْأعْمَالِ ، فَإِنَّ اللّٰہَ لاَ یَمَلُّ حَتّٰی تَمَلُّوْا ) ترجمہ : ’’ ٹھہر جاؤ ، تم اتنا عمل کیا کرو جتنا تمہاری طاقت میں ہو ، کیونکہ اللہ تعالی نہیں اکتاتا یہاں تک کہ تم خود اکتا جاؤ ‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی عمل سب سے زیادہ محبوب تھا جسے اس کا کرنے والا ہمیشہ کرتا رہے ۔ [ البخاری : ۱۱۵۱ ، ۷۸۵ ] یاد رہے کہ اس حدیث میں اللہ تعالی کے اکتانے کا ذکر کیا گیا ہے ، اور یہ مخلوق کے اکتانے کی طرح نہیں کہ جو عیب اور نقص شمار کیا جاتا ہے ، بلکہ یہ اسی طرح ہے جیسا کہ اس کی شایانِ شان ہے ۔ اور میں نے امام عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ سے سنا تھا کہ یہ ( اکتانا ) بھی باقی صفات کی طرح ہے ، اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالی اس وقت تک ثواب منقطع نہیں کرتا جب تک خود بندے عمل نہ چھوڑ دیں ۔ [ یہ بات میں نے ان سے بخاری کی حدیث : ۱۹۷۰ کی شرح کے دوران سنی تھی ] اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے توآپ نے دیکھا کہ دو ستونوں کے درمیان ایک رسی باندھی ہوئی ہے ، آپ نے پوچھا : یہ رسی کیسی ہے ؟ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا : یہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کیلئے ہے ، وہ نماز پڑھتی ہیں ، پھر جب تھک جاتی ہیں تواسی رسی کا سہارہ لے لیتی ہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ( لاَ ، حُلُّوْہُ ، لِیُصَلِّ أَحَدُکُمْ نَشَاطَہُ ، فَإِذَا فتََرَ فَلْیَقْعُدْ) ترجمہ: ’’ نہیں ، اسے کھول دو ، اور تم میں سے ہر شخص اس وقت تک نماز پڑھے جب