کتاب: نماز نفل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 163
اور ایک نو جوان تمیم بن حذلم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیتِ سجدہ کی تلاوت کی تو انہوں نے اس سے کہا : تم سجدہ کرو ، اور اس میں تم ہمارے امام ہو ۔ [البخاری معلقا : کتاب سجود القرآن باب من سجد لسجود القاریء ۔ قال الحافظ : وصلہ سعید بن منصور ] لہذا وہ سننے والا جو قاریٔ قرآن کی تلاوت کو بغور سن رہا ہو ، اور وہ اسے سنتے ہوئے اس کی متابعت بھی کر رہا ہو ، تو اگر قاریٔ قرآن سجدہ کرے تو وہ بھی کرے ، اور اگر وہ نہ کرے تو وہ بھی نہ کرے ۔ [ فتح الباری : ۲/۵۵۸ ، المغنی لابن قدامہ : ۲/۳۶۶ ، الشرح الممتع لابن عثیمین : ۴/۱۳۱ ] اور رہا وہ سامع جو سماعِ قرآن کا قصد نہیں کرتا بلکہ کہیں سے گذرتے ہوئے اس نے قراء ت سن لی ، اور قاری نے سجدہ کیا ، تو سامع پر لازم نہیں کہ وہ بھی سجدہ کرے ، جیسا کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ وہ اسے اس پر واجب نہیں سمجھتے تھے ۔ [ البخاری معلقا : کتاب سجود القرآن باب من رأی أن اللہ عز وجل لم یوجب السجود ۔ قال الحافظ : وصلہ ابن ابی شیبہ ] اور حضرت سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ کا کچھ لوگوں سے گذر ہوا جو کہ بیٹھے قرآن مجید پڑھ رہے تھے ، اور جب انہوں نے آیتِ سجدہ کو پڑھا تو سجدے میں پڑ گئے ، تب حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے بھی کہا گیا تو انہوں نے کہا : ( مَا لِہٰذَا غَدَوْنَا ) ’’ ہم اس کام کیلئے نہیں نکلے تھے ‘‘ [البخاری معلقا : وقال الحافظ : وصلہ عبد الرزاق ، وقال : إسنادہ صحیح ] اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے : ( إِنَّمَا السَّجْدَۃُ عَلٰی مَنِ اسْتَمَعَہَا ) ’’سجدۂ تلاوت اس پر ہے جو آیتِ سجدہ کو بغور سنے ۔‘‘[المرجع السابق ]