کتاب: نماز نفل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 16
نماز پڑھنا جائز ہے اور اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے ۔ [شرح صحیح مسلم : ۵/۲۱۶ ] اور رہا وہ سفر جس میں نماز قصر نہیں ہو سکتی تو اس میں بھی نفل نماز سواری پر پڑھی جا سکتی ہے ، اور یہی جمہور علماء کا مذہب ہے ، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ﴾ [ البقرۃ : ۱۱۵] ترجمہ : ’’ اور مشرق ومغرب سب اللہ ہی کے ہیں ، تم جدھر بھی رخ کروگے ادھر ہی اللہ کا رخ ہے ، بلا شبہ اللہ بہت وسعت والا اور جاننے والا ہے ۔‘‘ [ مزید تفصیلات کیلئے دیکھئے : فتح الباری لابن حجر : ۲/۵۷۵ ، شرح صحیح مسلم للنووی : ۵/۲۱۷ ، المغنی لا بن قدامہ ۲/۹۶ ] اور ابن جریر الطبری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کو راجح قرار دیا ہے کہ اس آیت میں بحالتِ سفر سواری پر نماز نفل پڑھنا بھی شامل ہے ، چاہے سواری کا رخ کسی طرف ہو ۔ [ جامع البیان : ۳/۵۳۰ ] اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن جریر الطبری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ انہوں نے جمہور کے مذکورہ مذہب کیلئے ایک دلیل یہ ذکر کی ہے کہ اللہ تعالی نے مریض اور مسافر کیلئے تیمم کی اجازت دی ہے ، اور علماء نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ جو شخص شہر سے ایک میل یا اس سے کم مسافت پر باہر ہو اور اس کی نیت اپنے گھر کی طرف واپس لوٹنا ہو ، مزید سفر کرنا نہ ہو ، اور اسے پانی نہ ملے تو وہ بھی تیمم کر سکتا ہے ، لہذا اتنی کم مسافت پر جب تیمم کرنا جائز ہے تو سواری پر نمازِ نفل پڑھنا بھی اس کیلئے جائز ہے ، کیونکہ دونوں اس رخصت میں شریک ہیں ۔ [ فتح الباری : ۲/۵۷۵]