کتاب: نماز نفل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 143
انہوں نے اپنی بہن حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے سامنے ذکر کیا ، اور انہوں نے وہ خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا ، تو آپ نے ارشاد فر مایا : ( نِعْمَ الرَّجُلُ عَبْدُ اللّٰہِ لَوْ کَانَ یُصَلِّیْ بِاللَّیْلِ ) یعنی ’’ عبد اللہ اچھا آدمی ہے ، اگر وہ رات کو نماز پڑھتا ‘‘
اس کے بعد وہ رات کا کم حصہ سوتے تھے ( اور زیادہ حصہ نمازِ تہجد میں گذارتے تھے) ۔ [ البخاری : ۱۱۲۱ ، ۱۱۲۲ ، مسلم : ۲۴۷۹ ]
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :
( إِنَّ اللّٰہَ یُبْغِضُ کُلَّ جَعْظَرِیٍّ ، جَوَّاظٍ ، سَخَّابٍ بِالْأَسْوَاقِ ، جِیْفَۃٍ بِاللَّیْلِ حِمَارٍ بِالنَّہَارِ ، عَالِمٍ بِأَمْرِ الدُّنْیَا جَاہِلٍ بِأَمْرِ الْآخِرَۃِ )
ترجمہ : ’’ بے شک اللہ تعالی ہر ایسے شخص کو ناپسند کرتا ہے جو انتہائی سخت مزاج ، بہت زیادہ کھانے والا ہو ، بازاروں میں چیخنے والا ہو ، رات کو مردہ پڑا رہتا ہو اور دن کو گدھا بنا رہتا ہو ، دنیاوی معاملات کو جاننے والا اور اخروی امور سے ناواقف ہو ۔‘‘
[ ابن حبان ۔ الإحسان ۔ : ۷۲ وصححہ الأرناؤط فی تحقیق ابن حبان : ۱/۲۷۴ ، والألبانی فی الصحیحۃ : ۱۹۵ وصحیح الترغیب والترہیب : ۶۴۵ ]
3. موت کو یاد کرنا اور کم امیدیں رکھنا ، کیونکہ یہ چیز انسان کو عمل صالح پر مجبور کرتی ہے اور اس کی سستی ختم کردیتی ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر ارشاد فرمایا :
( کُنْ فِیْ الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ )
یعنی ’’ دنیا میں ایک اجنبی یا مسافر کی طرح رہو ‘‘
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے :
( إِذَا أَمْسَیْتَ فلَاَ تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ ،