کتاب: نماز نفل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 10
حاصل کر سکتا ہے جسے میں نے اس پر فرض کیا ہے ، ( یعنی فرائض کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرنا ہی مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ) ، اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کر لیتا ہوں ، پھر جب میں اس سے محبت کر لیتا ہوں تو میں اس کا کان ‘ جس کے ذریعے وہ سنتا ہے ‘ اور اس کی آنکھ ‘ جس کے ذریعے وہ دیکھتا ہے ‘ اور اس کا ہاتھ جس کے ذریعے وہ پکڑتا ہے ، اور اس کا پاؤں ‘ جس کے ذریعے وہ چلتا ہے ‘ ان تمام اعضاء کو اپنی اطاعت میں لگا دیتا ہوں ، اور اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور بالضرور عطا کرتا ہوں ، اور اگر وہ میری پناہ طلب کرتا ہے تو میں یقینا اسے پناہ دیتا ہوں ‘‘ [ البخاری : ۶۵۰۲ ]
اور اس حدیث سے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ فرائض پر ہمیشگی کرنے سے بندے کو اللہ تعالی کی محبت نصیب ہوتی ہے ، اور فرائض کے بعد نفلی نماز ، نفلی روزہ ، صدقہ ، نفلی حج اور اس کے علاوہ باقی نفلی عبادات پر ہمیشگی کرنے سے اللہ تعالی کا تقرب حاصل ہوتا ہے ۔ [ فتح الباری ۱۱/۳۴۳]
7. نفلی نماز سے اللہ تعالی کا شکر ادا ہوتا ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو ( اتنا طویل ) قیام فرماتے کہ آپ کے پاؤں مبارک پھٹنے لگتے ، میں عرض کرتی ، اے اللہ کے رسول ! آپ ایسا کیوں کرتے ہیں ، حالانکہ اللہ تعالی نے آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف فرما دی ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے :
( اَفَلاَ أَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا ) ’’ کیا میں شکر گذا ربندہ نہ بنوں ؟ ‘‘ [ البخاری : ۴۸۳۷ ، مسلم : ۲۸۲۰]