کتاب: نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام - صفحہ 9
دلیل نمبر۲: نمازمیں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کی احادیث متعددصحابہ سے صحیح یا حسن اسانید کے ساتھ مروی ہیں، مثلاً: ۱۔ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ (مسلم: ۴۰۱ وابوداؤد: ۷۲۷( ۲۔ جابر( رضی اللہ عنہ (احمد ۳۸۱/۳ح ۱۵۱۵۶ وسندہ حسن( ۳۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ (صحیح ابن حبان ، الموارد: ۸۸۵ وسندہ صحیح) ۴۔ عبداللہ بن جابر البیاضی رضی اللہ عنہ (معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم الاصبہانی ۱۶۱۰/۳ ح۴۰۵۴وسندہ حسن واوردہ الضیاء فی المختارۃ ۱۳۰/۹ح۱۱۴( ۵۔ غضیف بن الحارث رضی اللہ عنہ (مسند احمد ۱۰۵/۴، ۲۹۰/۵ وسندہ حسن( ۶۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (ابوداؤد: ۷۵۵ وابن ماجہ: ۸۱۱ وسندہ حسن( ۷۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ (ابوداؤد: ۷۵۴ واسنادہ حسن واوردہ الضیاء المقدسی فی المختارۃ ۳۰۱/۹ح ۲۵۷( یہ حدیث متواتر ہے۔ (نظم المتناثر من الحدیث المتواتر ص۹۸ ح ۶۸( دوسرا گروہ کہتا ہے نما ز میں ارسال کرنا چاہیے (ہاتھ نہ باندھے جائیں) اس گروہ کی دلیل المعجم الکبیرللطبرانی میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں ارسال یدین کرتے تھے اور کبھی کبھار دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھتے تھے۔(مجمع الزوائد۱۰۲/۲( اس دلیل کا جائزہ اس روایت کی سند کا ایک راوی خصیف بن جحدر ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ۷۴/۲۰، ح۱۳۹( امام بکاری ، ابن الجارود، الساجی شعبہ ، القطان اور ابن معین وغیرہ نے کہا: کذاب (جھوٹا)ہے۔ (دیکھئے لسان المیزان ۴۸۶/۲( حافظ ہیثمی نے کہا: کذاب ہے۔ (مجمع الزوائد ۱۰۲/۲( معلوم ہوا کہ یہ سند موضوع (من گھڑت)ہے لہٰذا اس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے۔