کتاب: نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام - صفحہ 7
حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں:
"وقال الثوری وأبو حنیفۃ واسحاق : أسفل السرۃ، ورویٰ ذلک عی علی وابی ھریرۃ والنخعی ولا یثبت ذلک عنھم وھو قول أبی مجلز۔"ثوری، ابو حنیفہ اور اسحاق (بن راہویہ) کہتے ہیں کہ ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے چاہییں(!) اور یہ بات علی ( رضی اللہ عنہ (اور ابو ہریرہ )رضی اللہ عنہ(اور )ابراہیم (نخعی )سے مروی ہے مگر ان سے ثابت نہیں ہے اور ابو مجلز کا یہی قول ہے۔ (التمہید ۷۵/۶۰(سعودی عرب کے مشہور شیخ عبداللہ بن عبدالرحمٰن الجبرین کی تقدیم و مراجعت سے چھپی ہوئی کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ : "الصواب: السنۃ وضع الید الیمنیٰ علی الیسریٰ علی الصدر" صحیح یہ ہے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ، سینے پر رکھنا سنت ہے۔(القول المتین فی معرفۃ ما یہم المصلین ص ۴۹(امام اسحاق بن راہویہ اپنے دونوں ہاتھ ، اپنی چھاتیوں پر یا چھاتیوں سے نیچے (سینے پر) رکھتے تھے۔ (مسائل الامام احمد واسحاق ص ۲۲۲ وصفۃ صلوٰۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ص ۶۱(اس کے برعکس دیوبندی وبریلوی حضرات یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ "غیر مقلدین کہتے ہیں کہ ہاتھ سینے پر باندھنے چاہییں۔" (حدیث اور اہل حدیث ص۲۷۹(
دیوبندیوں وبریلویوں کا یہ دعویٰ ہے کہ "مردتو ناف سے نیچے ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینہ پر ہاتھ باندھیں " حالانکہ اس دعویٰ کی کوئی صریح دلیل ان کے پاس نہیں ہے۔
آخر میں عرض ہے کہ بریلویوں ودیوبندیوں کے ساتھ اہل حدیث کا اصل اختلاف عقائد اور اصول میں ہے ۔ دیکھئے القول المتین فی الجہر بالتامین ص ۸ تا ۱۸
تنبیہ: رکوع کےبعد ہاتھ باندھنے چاہییں یا نہیں باندھنے چاہییں ، یہ مسئلہ اجتہادی ہے، دونوں طریقے صحیح ہیں، دیکھئے مسائل صالح بن احمد بن حنبل (قلمی ص۹۰،مطبوع ۲۰۵/۲ مسئلہ نمبر ۷۷۶(اس سلسلے میں تشدد نہیں کرنا چاہیے، بہتر یہی ہے کہ رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑ دیئے جائیں تاہم اگر کوئی شخص ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتا ہے تو کوئی حرج نہیں۔ (۷/اگست ۲۰۰۴ء(