کتاب: نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام - صفحہ 5
کتاب: نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام مصنف: حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ پبلیشر: مكتبة أهل الأثر للنشر والتوزيع، ملتان پاکستان ترجمہ: زیر تبصرہ کتاب" نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام "محقق العصر محترم مولانا حافظ زبیر علی زئی صاحب کی تصنیف ہے ، جس میں انہوں نے نماز میں ہاتھ باندھنے اور ہاتھ باندھنے کے مقام کے حوالے سے مدلل گفتگو کی ہے۔ مقدمہ الحمد للّٰه رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ الامین ، أما بعد: متواتر حدیث میں آیا ہے کہ: نبی صلی اللّٰه علیہ وسلم نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھتے تھے۔ دیکھئے نظم المتناثر (ص ۹۸ حدیث:۶۸( اس کے سراسربرعکس مالکیوں کی غیر مستند کتاب "المدونہ" میں لکھا ہوا ہے: "وقال مالک فی وضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلوٰۃ قال: لا اعرف ذلک فی الفریضۃ وکان یکرھہ ولکن فی النوافل اذا طال القیام فلاباس بذلک یعین بہ نفسہ" (امام( مالک نے نماز میں ہاتھ باندھنے کے بارے میں کہا: "مجھے فرض نماز میں اس کا ثبوت معلوم نہیں" وہ اسے مکروہ سمجھتے تھے، اگر نوافل میں قیام لمبا ہوتو ہاتھ باندھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس طرح وہ اپنے آپ کو مدد دے سکتا ہے۔ (المدونہ ۷۶/۱( تنبیہ: مدونہ ایک مشکوک اور غیر مستند کتاب ہے۔دیکھئے القول المتین فی الجہر بالتامین(ص ۷۳( اس غیر ثابت قول کے مقابلے میں موطا امام مالک میں باب باندھا ہوا ہے: "باب وضع الیدین احداھما علی الاخری فی الصلوٰۃ" (۱۵۸/۱( اس باب میں امام مالک سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ والی حدیث لائے ہیں: "کان الناس یؤمرون أن یضع الرجل الیدالیمنیٰ علی ذراعہ الیسریٰ فی الصلوٰۃ" لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھے۔ (۱۵۹/۱ح ۳۷۷والتمہید ۹۶/۲۱، والاستذکار: ۳۴۷ والزرقانی: ۳۷۷(